وہ ہم سے کہتے ہیں کہ تمہارے نزدیک اللہ تعالیٰ نزول فرماتا ہے، اس حوالے سے تم سے ہمارا سوال یہ ہے کہ جب اللہ اترتا ہے، تو پھر علو کہاں گیا؟ اس کا عرش پر مستوی ہونا کہاں گیا؟ اگر وہ نزول فرماتا ہے تو نزول تو حرکت وانتقال کا متقاضی ہے، اگر وہ اترتا ہے تو اترنا حادث ہے اور حوادث حادث کی وجہ سے ہی قائم رہ سکتے ہیں ، مگر ہم کہتے ہیں کہ یہ باطل کے ساتھ جھگڑا کرنا ہے، حقیقت نزول کا قول اختیار کرنے میں کوئی بھی چیز رکاوٹ نہیں ہے۔ کیا تم اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ ان امور کا علم رکھتے ہو جن کا اللہ تعالیٰ استحقاق رکھتا ہے؟
انہوں نے تو اس طرح کے احتمالات کبھی پیدا نہیں کیے، وہ تو ہمیشہ یہی کہتے رہے، ہم نے سنا اور ہم ایمان لائے، ہم نے قبول کیا اور ہم نے تصدیق کی۔اصحاب رسول کی مخالفت پر کمر بستہ لوگو! تم اب آئے اور باطل کے ساتھ جھگڑا کرنے لگے، اور یہ کس طرح؟ اور وہ کس طرح؟ کے راگ الاپنے شروع کر دیئے۔
ہم کہتے ہیں کہ ہمارا رب نزول فرماتا ہے، ہم اس کے استواء علی العرش کی بحث ہی نہیں کرتے، ہم یہ بات ہی نہیں کرتے کہ اس دوران عرش خالی ہوتا ہے یا نہیں ہوتا؟
رہا علو، تو ہم کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نزول فرماتا ہے مگر وہ اپنی مخلوق پر عالی بھی ہے، نزول کا یہ معنی ہرگز نہیں ہے کہ آسمان اسے اٹھائے ہوئے ہے اور دوسرے آسمان اس پر سایہ کیے ہوئے ہیں ، اس لیے کہ اس کی مخلوق میں سے کوئی بھی چیز اس کا احاطہ نہیں کر سکتی۔
ہم کہتے ہیں : وہ حقیقتاً اترتا ہے اور حقیقتاً عالی بھی ہے اور اس کی مثل کوئی چیز نہیں ہے۔
جہاں تک استواء علی العرش کا تعلق ہے تو یہ فعل ہے، اسے صفات ذات میں شمار نہیں کیا جاتا اور ہمیں یہ بحث کرنے کا کوئی حق نہیں پہنچتا کہ نزول کے دوران اس کا عرش اس سے خالی ہوتا ہے یا نہیں ؟ ہمیں اس بارے میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی طرح سکوت اختیار کرنا چاہیے۔
عرش کے خالی ہونے پر علماء کے اقوال
علمائے اہل سنت کے اس بارے میں تین اقوال ہیں : ایک قول یہ کہ اس دوران عرش خالی ہوتا ہے، دوسرا یہ کہ وہ خالی نہیں ہوتا اور تیسرا یہ کہ اس بارے توقف اختیار کیا جائے۔
شیخ الاسلام ’’الرسالۃ العرشیۃ‘‘ میں فرماتے ہیں : عرش اللہ تعالیٰ سے خالی نہیں ہوتا، اس لیے کہ استواء علی العرش کے دلائل محکم ہیں اور حدیث بھی محکم ہے۔ اللہ تعالیٰ کی صفات کو مخلوق کی صفات پر قیاس نہیں کیا جا سکتا۔ لہٰذا استواء کی نصوص اور نزول کی نص کو ان کے احکام پر باقی رکھنا واجب ہے، ہم کہتے ہیں : وہ عرش پر مستوی ہے وہ آسمان دنیا پر نزول فرماتا ہے، مگر اس کی کیفیت کے بارے میں اللہ بہتر جانتا ہے، ہماری عقلیں اللہ تعالیٰ کا احاطہ کرنے سے قاصر ہیں ۔
جب لوگ اس امر سے آشنا ہوئے کہ زمین گول ہے اور سورج اس کے اردگرد چکر لگاتا ہے، تو متاخرین نے یہ اشکال پیش کیا کہ اللہ تعالیٰ رات کے آخری ثلث میں کس طرح نزول فرماتا ہے، یہ وقت جب سعودی عرب سے منتقل ہوتا ہے تو
|