’’کیا میں تمہیں ایسی تجارت بتاؤں جو تم کو دردناک عذاب سے نجات دلائے؟‘‘
یَدْعُوْنِیْ … یعنی یا رب! یا رب! کہہ کر مجھے پکارے۔
[فَاَسْتَجِیْبَ] … نصب کے ساتھ، اس لیے کہ یہ جواب طلب ہے۔
[مَنْ یَسْاَلُنِیْ ] … وہ مجھ سے جنت یا کسی اور چیز کا سوال کرے۔
[مَنْ یَسْتَغْفِرُنِیْ] … مثلاً وہ یوں کہے ’’اللّٰہُمَّ اغْفِرْلِیْ‘‘ یا اللہ! مجھے معاف فرما دے، یا اَسْتَغْفِرُکَ اللّٰہُمَّ۔ میرے اللہ! میں تجھ سے معافی مانگتا ہوں ۔
[فَاَغْفِرَ لَہُ۔] … مغفرت۔ گناہوں کی پردہ پوشی کرنا اور ان سے در گزر فرمانا۔
اس حدیث سے یہ بات کھل کر سامنے آجاتی ہے کہ اس جگہ نزول سے مراد اللہ تعالیٰ کا بنفس نفیس نزول فرمانا ہے۔ اس لیے کہ فعل اس کی طرف مضاف ہے، مگر بعض علماء کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنی ذات کے ساتھ نزول فرماتا ہے، پھر بعض کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا امر اترتا ہے، بعض کہتے ہیں کہ اللہ کی رحمت اترتی ہے، جبکہ بعض کے نزدیک اللہ تعالیٰ کا کوئی فرشتہ اترتا ہے۔
مگر یہ سب کچھ باطل ہے، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہمیشہ اترتا رہتا ہے، اس کا نزول رات کے آخری ثلث کے ساتھ مختص نہیں ہے۔ ارشاد ہوتا ہے:
﴿یُدَبِّرُ الْاَمْرَ مِنَ السَّمَآئِ اِلَی الْاَرْضِ ثُمَّ یَعْرُجُ اِلَیْہِ﴾ (السجدۃ: ۵)
’’وہی تدبیر کرتا ہے امر کی آسمان سے زمین تک پھر وہ امر اس کی طرف چڑھے گا۔‘‘
﴿وَ اِلَیْہِ یُرْجَعُ الْاَمْرُ کُلُّہٗ﴾ (ہود: ۱۲۳) ’’اور سب کے سب کام اسی کی طرف لوٹائے جائیں گے۔‘‘
رہا ان کا یہ کہنا کہ اس وقت آسمان دنیا پر رحمت ایزدی کا نزول ہوتا ہے، تو کیا اس کا صرف اسی وقت ہی نزول ہوتا ہے؟ جبکہ اللہ تعالیٰ تو فرماتا ہے:
﴿وَ مَا بِکُمْ مِّنْ نِّعْمَۃٍ فَمِنَ اللّٰہِ﴾ (النحل: ۵۳)
’’تمہارے پاس جو بھی نعمت ہے وہ اللہ کی طرف سے ہے۔‘‘
سب نعمتیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہیں اور یہ اس کی رحمت کے آثار ہیں جو کہ بروقت اترتی رہتی ہے، پھر یہ بھی سوال کیا جا سکتا ہے کہ آسمان دنیا پر نزول رحمت کا ہمیں کیا فائدہ؟
جو شخص یہ کہتا ہے کہ آسمان دنیا پر کوئی فرشتہ اترتا ہے، تو اس سے ہم یہ پوچھنا چاہیں گے کہ کیا کسی فرشتے کا یہ کہنا معقول ہے کہ: مجھے کون پکارے گا کہ میں اس کی پکار سنوں …؟
اس سے یہ بات واضح ہوگئی کہ یہ اقوال تحریف باطل کے زمرے میں آتے ہیں اور ان کا ابطال یہ حدیث کرتی ہے۔ اللہ کی قسم! یہ لوگ نہ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ علم رکھتے ہیں نہ ان سے بڑھ کر اللہ کے بندوں کے خیر خواہ ہیں اور نہ ہی ان سے زیادہ فصیح المقال۔
|