﴿لَقَدْ تَّابَ اللّٰہُ عَلَی النَّبِیِّ وَالْمُہٰجِرِیْنَ وَالْاَنْصَارِ﴾ (التوبۃ:۱۱۷)
’’یقینا اللہ تعالیٰ نے نبی، مہاجرین اور انصار پر رحمت سے توجہ فرمائی۔‘‘
اور مال فے کی تقسیم کے بارے میں فرمایا گیا:
﴿لِلْفُقَرَائِ الْمُہَاجِرِیْنَ الَّذِیْنَ اُخْرِجُوْا مِنْ دِیارِہِمْ وَاَمْوَالِہِمْ﴾ (الحشر:۸)
’’فقراء مہاجرین کے لیے جنہیں نکال دیا گیا ان کے گھروں سے اور ان کے مالوں سے۔‘‘
پھر فرمایا:
﴿وَالَّذِیْنَ تَبَوَّئُ وا الدَّارَ وَالْاِِیْمَانَ مِنْ قَبْلِہِمْ﴾ (الحشر:۹)
’’اور ان لوگوں کا بھی حق ہے جو دارالسلام اور ایمان میں ان کے قبل سے قرار پکڑے ہوئے ہیں ۔‘‘
اس جگہ پہلے مہاجرین کا ذکر کیا گیا اور پھر انصار کا۔
اہل بدر کے فضائل
٭ مؤلف رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
((ویومنون بان اللہ قال لا ہل بدر۔ وکانوا ثلاث مائۃ و بضعۃ عشر۔ اعملوا ما شئتم: فقد غفرت لکم۔))
’’اور ان کا اس بات پر بھی ایمان ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اہل بدر سے فرمایا۔ ان کی تعداد تین سو دس سے کچھ زائد تھی۔ تم جو چاہو عمل کرو، یقینا میں نے تمہیں معاف کر دیا۔‘‘
شرح:…جنگ بدر میں شریک ہونے والے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا مرتبہ دیگر تمام اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑا ہے۔
بدر ایک مشہور جگہ کا نام ہے جہاں مشہور جنگ بدر لڑی گئی۔ یہ جنگ ۲ ہجری کو رمضان المبارک کے مہینے میں ہوئی۔ جسے اللہ تعالیٰ نے یوم الفرقان کے نام سے موسوم فرمایا۔
غزوہ بدر کا سبب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم ہوا کہ ابو سفیان قریش کے تجارتی قافلہ کے ساتھ شام سے واپس مکہ جارہا ہے، تو آپ نے اس قافلہ کا تعاقب کرنے کے لیے اپنے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو جمع کر کے اس کے لیے مشورہ کیا ۔ مسلمانوں کا جو گروہ اس قافلہ کے تعاقب کے لیے نکلا اس کی تعداد مشہور روایت کے مطابق صرف تین سو تیرہ تھی، جن کے پاس ستر اونٹ دو گھوڑے اور چند تلواریں تھیں ، جب یہ لوگ مدینہ منورہ سے روانہ ہوئے تو ان کا ارادہ جنگ کرنے کا قطعاً نہیں تھا مگر اللہ تعالیٰ کی حکمت کا تقاضا یہی ہوا کہ انہیں اور ان کے دشمنوں کو آمنے سامنے لا کھڑا کرے۔
جب ابو سفیان کو مسلمانوں کے تعاقب کا علم ہوا تو گھبرا گیا اور ایک آدمی کو فوراً مکہ بھیجا تاکہ وہ قریش کو صورت حال سے آگاہ کرے اور ان سے مدد طلب کرے۔ جب انہیں صورت حال کا علم ہوا تو تمام روساء مکہ اور سردار ان قریش بڑے
|