Maktaba Wahhabi

338 - 552
اعتدال پر مبنی یہی روش اختیار فرماتے۔ اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ اللہ قریب ہے، اس پر یہ ارشاد باری تعالیٰ دلالت کرتا ہے: ﴿وَاِذَا سَاَلَکَ عِبَادِیْ عَنِّیْ فَاِنِّیْ قَرِیْبٌ اُجِیْبُ دَعْوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ﴾ (البقرۃ: ۱۸۶) ’’اور جب آپ سے میرے بندے میرے بارے میں سوال کریں تو بیشک میں قریب ہوں ، میں پکارنے والے کی پکار کو سنتا ہوں وہ جب بھی مجھے پکارے۔‘‘ سلوک کے حوالے سے مستفاد امور عبادات کے لیے اپنے آپ کو مشقت میں ڈالنا مناسب نہیں ہے، اس کے لیے افراط و تفریط سے ہٹ کر درمیانی روش اختیار کرنی چاہیے۔اللہ تعالیٰ کی معصیت ومخالفت سے دور رہنا چاہیے، اس لیے کہ وہ قریب ہے، سننے والا اور دیکھنے والا ہے۔ وضاحت کے لیے غائب کو حاضر کے ساتھ تشبیہ دینا جائز ہے۔ انسان کو چاہیے کہ وہ مفاہیم ومعانی کی وضاحت کے لیے اقرب الی الفہم امور کا انتخاب کرے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سفر کی حالت میں تھے اور اپنی اپنی سواریوں پر سوار تھے، اس وقت قریب کی اس مثال سے زیادہ کوئی دوسری مثال خوبصورت اور موثر نہیں ہو سکتی تھی جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے سامنے بیان فرمائی۔ اللہ تعالیٰ کے دیدار کا اثبات ٭ سولہویں حدیث رؤیت باری تعالیٰ کے اثبات میں : آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (( اِنَّکُمْ سَتَرَوْنَ رَبَّکُمْ کَمَا تَرَوْنَ الْقَمَرَ لَیْلَۃَ الْبَدْرِ ، لَا تُضَامُّوْنَ فِيْ رُؤْیَتِہِ ؛ فَاِنِ اسْتَطَعْتُمْ اَنْ لَّا تُغْلَبُوْا عَلَی صَلَاۃٍ قَبْلَ طُلُوْعِ الشَّمْسِ وَصَلَاۃٍ قَبْلَ غُرُوْبِہَا؛ فَافْعَلُوْا۔)) متفق علیہ [1] ’’یقینا تم لوگ اپنے رب کو اس طرح دیکھو گے جس طرح چودھویں کے چاند کو دیکھا کرتے ہو، تمہیں اسے دیکھتے وقت بھیڑ بھاڑ کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا، اگر تمہارے بس میں ہو کہ تم طلوع آفتاب سے قبل کی نماز (نماز فجر) اور غروب آفتاب سے قبل کی نماز (نماز عصر) کی ادائیگی سے کسی دوسرے کام میں الجھا نہ دیئے جاؤ تو ایسا ضرور کرنا۔‘‘ شرح:… [ اِنَّکُمْ سَتَرَوْنَ رَبَّکُمْ ] … سین تحقیق اور فعل مضارع کو مستقبل کے معنی میں لے جانے کے لیے ہے، جبکہ قبل ازیں اس میں حال اور مستقبل دونوں معنوں کی گنجائش موجود تھی، اور یہ خطاب اہل ایمان سے ہو رہا ہے۔ [کَمَا تَرَوْنَ الْقَمَرَ ] … رؤیت سے مراد رؤیت بصریہ ہے، اس لیے کہ ہم چاند کو آنکھوں سے دیکھتے ہیں ، چونکہ
Flag Counter