آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ((اَغْنِنِیْ مِنَ الْفَقْرِ))کہہ کر اپنے رب سے فقر سے بے نیاز کرنے کی درخواست کی اس لیے کہ اس کے ہولناک نتائج برآمد ہوسکتے ہیں ۔
وہ اسماء و صفات جن پر یہ حدیث مشتمل ہے
اس حدیث میں مندرجہ ذیل اسماء وصفات کا ذکر ہے:
اسماء: الاول، الاخر، الظاہر، الباطن۔
صفات: اولیت، آخریت، علو، عموم ربوبیت، تمام قدرت اور کمال رحمت وحکمت۔
اور اس میں اسماء وصفات کے علاوہ مندرجہ ذیل امور ہیں : اللہ تعالیٰ کے حضور اللہ تعالیٰ کی صفات کا وسیلہ پیش کرنا، نفس کے شر سے خبردار رہنا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اللہ تعالیٰ سے قرض کی ادائیگی اور فقر وفاقہ سے بے نیازی کی دعاکرنا، اس حدیث سے اس حدیث کے ضعف کا بھی اثبات ہوتا ہے، جس میں بتایا گیا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے رب تعالیٰ سے سوال کیا کہ مجھے مسکین بنا کر زندہ رکھنا۔[1]
اس حدیث میں موجود سلوکی فوائد
نفس کی شر سے خبردار رہنا، دین کی تعظیم کرنا، بقدر امکان قرض سے سبکدوش ہونے کی کوشش کرنا، مال کمانے اور اسے خرچ کرتے وقت میانہ روی سے کام لینا، اس سے انسان غالباً فقر واحتیاج اور قرض سے محفوظ رہنا ہے۔
اللہ کی صفت قرب کا اثبات
٭ پندرھویں حدیث اللہ تعالیٰ کے قرب کے بارے میں :
جب ذکر کرتے وقت صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی آوازیں بلند ہوگئیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((اَیُّہَا النَّاسُ! اِرْبَعُوْا عَلَی اَنْفُسِکُمْ ؛ فَاِنَّکُمْ لَا تَدْعُوْنَ اَصَمَّ وَلَا غَائِبًا ، اِنَّمَا تَدْعُوْنَ سَمِیْعًا بَصِیْرًا ، اِنَّ الَّذِیْ تَدْعُوْنَہُ اَقْرَبُ اِلٰی اَحَدِکُمْ مِنْ عُنُقِ رَاحِلَتِہِ۔)) متفق علیہ۔[2]
’’لوگو! اپنے آپ پر ترس کھاؤ، تم کسی بہرے اور غائب کو نہیں سننے والے دیکھنے والے کو پکار رہے ہو۔ جسے تم پکارتے ہو وہ تمہاری سواری کی گردن سے بھی زیادہ تمہارے قریب ہے۔‘‘
شرح:… صحابہ کرام رضی اللہ عنہم دوران سفر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے، وہ جب اوپر چڑھتے تو اللہ اکبر کہتے اور جب
|