Maktaba Wahhabi

29 - 552
شرح مقدمہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ بسم اللہ کی بحث ٭ مؤلف رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ﴿بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ﴾ شرح:…جملہ مولفین کی عادت رہی ہے کہ وہ افعال خیر کی ابتدا ’’بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ‘‘ سے کیا کرتے ہیں جس سے مقصود کتاب اللہ کی اقتدا اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کرنا ہوتا ہے۔ اللہ رب العزت نے ہر سورت کی ابتدا میں بسم اللہ کا نزول فرمایا ہے۔ بِسْمِ اللّٰہِکے اعراب و معانی اور اس کے متعلقات کے بارے میں علماء نے بہت کچھ کہا ہے، اس بارے میں سب سے خوبصورت قول یہ ہے کہ یہ موقعہ و محل کی مناسبت سے متاخر فعل محذوف سے متعلق ہے، مثلاً جب اسے کھانا کھانے والا پڑھے گا تو تقدیر عبارت اس طرح ہوگی: ’’بسم اللّٰہ آکل‘‘ اور جب اسے قرأت کرنے والا پڑھے گا تو تقدیری عبارت ہوگی: ’’بسم اللہ اقرأ‘ ‘ میں اللہ کے نام سے کھاتا ہوں ، میں اللہ کے نام سے پڑھتا ہوں ۔ اس دوران فعل کو مقدر مانا جائے گا نہ کہ اسم کو اس لیے کہ عمل میں اصل افعال ہیں نہ کہ اسماء، یہی وجہ ہے کہ افعال کسی شرط کے بغیر عمل کرتے ہیں جبکہ اسماء بدون شرط عمل نہیں کرتے، اور اس کی وجہ یہ ہے کہ عمل افعال میں اصل اور اسماء میں فرع ہے۔ فعل کو متاخر تسلیم کرنے کے دو فائدے ہیں : پہلا فائدہ:…حصر: اس لیے کہ معمول کی تقدیم حصر کا فائدہ دیتی ہے، اس اعتبار سے بسم اللہ أقرئْ، لَا أَقرء اِ لّا باسم اللّٰہ کے مترادف ہوگا۔ دوسرا فائدہ:…اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے مقدس نام کے ساتھ ابتدا سے تبرک کا حصول۔ پھر ہم اسے بطور فعل خاص کے مقدر قرار دیتے ہیں ، اس لیے کہ عام کی نسبت خاص مقصود پر زیادہ دلالت کرتا ہے، میرے لیے یہ کہنا توممکن ہے کہ اس کی تقدیری عبارت بسم اللہ ابتدیٔ ہے مگر یہ عبارت تعیین مقصود پر دلالت نہیں کرتی۔ جبکہ (بسم اللّٰہ أقراء) میں فعل خاص ہے اور خاص عام کے مقابلہ میں معنی پر ’’اللّٰہ‘‘ زیادہ دلالت کرتا ہے۔ یہ راحج قول کی رو سے مشتق ہے۔ اس کی دلیل یہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَ ہُوَ اللّٰہُ فِی السَّمٰوٰتِ وَ فِی الْاَرْضِ یَعْلَمُ سِرَّکُمْ وَ جَہْرَکُمْ﴾ (الانعام:۳) ’’اوروہی ہے اللہ آسمانوں میں اور زمین میں ۔‘‘
Flag Counter