Maktaba Wahhabi

234 - 552
تُقَطَّعَ اَیْدِیْہِمْ وَ اَرْجُلُہُمْ مِّنْ خِلَافٍ اَوْ یُنْفَوْا مِنَ الْاَرْضِ﴾ (المائدہ:۳۳) ’’ان لوگوں کی سزا جو اللہ اوراس کے رسول سے جنگ کریں اور زمین میں فساد پیدا کرنے کی کوشش کریں ، یہ ہے کہ انہیں قتل کر دیا جائے۔ یا سولی دے دی جائے یا مخالف طرف سے ان کے ہاتھ اور پاؤں کا ٹ دیئے جائیں یا انہیں ملک سے نکال دیا جائے۔‘‘ جب ہمیں معلوم ہو گا کہ ڈاکہ زنی اللہ سے جنگ کرنا ہے اور یہ کہ عزت اللہ کے لیے ہے تو ہم اس عمل سے باز آجائیں گے۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ ہی غالب ہے۔ اللہ تعالیٰ کے لیے وصف عزت پر ایمان لانے سے یہ درس بھی ملتا ہے کہ صاحب ایمان شخص کو اپنے دین میں ٹھوس ہونا چاہیے اور کوئی کتنا بھی بڑا کیوں نہ ہو اس کے سامنے کمزوری کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے، ہاں اہل ایمان کے ساتھ اس کا رویہ ملائمت اور نرمی پر مبنی ہونا ضروری ہے۔ اللہ تعالیٰ کے لیے اسم کا اثبات ٭ مؤلف رحمہ اللہ نے اللہ تعالیٰ کے لیے اسم کے اثبات کی دلیل کے طور پر ایک آیت ذکر کی ہے جبکہ اس کی تنزیہ اور تمثیل کی نفی کے لیے متعدد آیات لائے ہیں ۔ اثبات اسم کی قرآنی دلیل: ﴿تَبَارَکَ اسْمُ رَبِّکَ ذِیْ الْجَلَالِ وَالْاِِکْرَامِo﴾ (الرحمن:۷۸) ’’تیرے رب کا نام بابرکت ہے جو جلال اور عزت والا ہے۔‘‘ شرح:…[تَبَارَک]… علماء فرماتے ہیں : اگر برکت کے ساتھ اللہ تعالیٰ کو موصوف کیا جائے تو اس کا معنی ہوتا ہے: وہ باعظمت و برتر ہے، جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿فَتَبَارَکَ اللّٰہُ اَحْسَنُ الْخَالِقِیْنَ﴾ (المومنون:۱۴) ’’بابرکت ہے اللہ جو سب سے بہترین پیدا کرنے والا ہے۔‘‘ اگر اس کے ساتھ اللہ کے اسم کو صوف کیا جائے تو پھر اس کا معنی ہوگا: برکت اللہ کے نام سے ہوتی ہے۔ یعنی جس چیز کے ساتھ اللہ کا نام آجائے اس میں برکت ہوجاتی ہے۔ اسی لیے ایک حدیث میں آتا ہے: ’’جس بھی اہم کام کا آغاز اللہ کے نام کے ساتھ نہ ہو وہ بے برکت ہوتا ہے۔‘‘[1]
Flag Counter