بہر حال اس سے مراد خوراک ہو تو بھی درست ہے اور اگر اس سے مراد سونا ہو تو بھی درست ہے۔ مدّیانصف مدّ سونے کی بھی سونے کے جبل احد کے مقابلے میں کوئی حیثیت نہیں ہے۔
اگر ہم میں سے کوئی شخص جبل احد کے برابر سونا بھی خرچ کرے تو وہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی طرف سے خرچ کیے گئے نہ مد کے برابر ہو سکتا ہے اور نہ نصف مدّ کے۔ انفاق بھی ایک ہے۔ خرچ کرنے والا بھی انسان ہے اور جس پر خرچ کیا گیا وہ بھی انسان ہے۔ مگر سب انسان ایک جیسے نہیں ہوتے۔ جو فضائل و مناقب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو حاصل ہیں وہ دوسروں کو حاصل نہیں ہیں ۔ وہ انفاق فی سبیل اللہ میں اپنے انتہائی خلوص اور شدید اتباع کی وجہ سے دوسروں سے کہیں افضل ہیں ۔
صحابہ کرام کو سب و شتم کرنے کی یہ نہی تحریم کی متقاضی ہے، کسی شخص کے لیے بھی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو علی العموم گالی دینا جائز نہیں ہے اور نہ کسی کو علی الخصوص گالی دینا جائز ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو علی العموم گالی دینے والا کافر ہے، بلکہ اس کے کفر میں شک کرنے والے کے کفر میں بھی کوئی شک نہیں ہے، اور اگر کوئی انھیں علی سبیل الخصوص گالی دیتا ہے تو اس کا سبب دیکھا جائے گا، کوئی بد نصیب انھیں اپنے خیال میں بعض خلقی، خلقی یا دینی امور کی وجہ سے بھی گالی دے سکتا ہے، ان میں سے ہر ایک کا حکم الگ الگ ہے۔
فضائل صحابہ کرام رضی اللہ عنہم
٭ مؤلف رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
((ویقبلون ماجاء بہ الکتاب والسنۃ والاجماع من فضائلہم و مراتبہم۔))
’’اور وہ ان کے فضائل و مراتب کے بارے میں کتاب و سنت اور اجماع کی تصریحات کو قبول کرتے ہیں ۔‘‘
شرح:…[یقبلون] … یعنی اہل سنت۔
الفضائل: یہ فضیلۃ کی جمع ہے، وہ خوبی جس کی وجہ سے ایک انسان دوسرے انسان سے بڑھ جاتا ہے۔ اور جو چیز اس کی عمدہ خصلت شمار ہوتی ہے ۔
المراتب: درجات، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے مختلف مراتب اور درجات ہیں ۔ جن کا ذکر مولف آگے چل کر کریں گے۔ یعنی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے فضائل اور درجات و مراتب کو اہل سنت قبول کرتے ہیں ۔
مثلاً اہل سنت ان کی طرف سے کثرت صوم وصلاۃ، کثرت صدقہ، کثرت حج، کثرت جہاد یا اس قسم کے دیگر فضائل کو قبول کرتے ہیں ۔
اسی طرح وہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی اس فضیلت کو قبول وتسلیم کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صدقہ کی ترغیب دلائی تو انہوں نے سارا مال آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کردیا۔[1]
|