’’اس تقدیر کا پہلے غالی قدریہ انکار کرتے تھے، جبکہ آج کل اس کے منکرین کی تعداد بہت کم ہے۔‘‘
شرح:…[فہذا التقدیر] … یعنی علم اور تقدیر کا پہلے غالی قدریہ انکار کرتے تھے، ان کا کہنا تھا کہ اللہ تعالیٰ کو بندوں کے افعال کا ان کے معرض وجود میں آجانے کے بعد علم ہوتا ہے، اور یہ کہ وہ لکھے ہوئے نہیں ہوتے۔ وہ کہتے تھے کہ معاملات نئے سرے سے وجود میں آتے ہیں ، مگر ان کے متاخرین علم اور کتابت کا تو اقرار کرتے جبکہ مشیت اور خلق کا انکار کرتے ہیں ، یہ بندوں کے افعال کی نسبت سے ہے۔ مگر خود اللہ تعالیٰ کے افعال کی نسبت سے کوئی بھی اس بات کا انکار نہیں کرتا کہ اللہ تعالیٰ کو ان کے وقوع سے قبل ان کا علم ہوتا ہے۔جو لوگ بندوں کے أفعال کے بارے میں اللہ تعالیٰ کے علم کا انکار کرتے ہیں ، شرع ان پر کفر کا حکم لگاتی ہے۔ اس لیے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد مبارک :
﴿وَاللّٰہُ بِکُلِّ شَیْئٍ عَلِیْمٌo﴾ (البقرہ:۲۸۲)’’اور اللہ ہر شے کا علم رکھتا ہے۔‘‘
اور اس جیسی دیگر بہت سی آیات کا انکار کرتے اور معلوم ضروریات دین کی مخالفت کرتے ہیں ۔
ایمان بالقدر کا دوسرا درجہ
٭ مؤلف رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
((وَاَمَّا الدَّرَجَۃُ الثَّانِیَۃُ فَہِیَ مَشِیْئَۃُ اللّٰہِ النَّافِذَۃُ ، وَقُدْرَتُہُ الشَّامِلَۃُ ، وَہُوَ الْاِیْمَانُ بِاَنَّ مَا شَائَ اللّٰہُ کَانَ ، وَمَا لَمْ یَشَاْ لَمْ یَکُنْ ، وَاَنَّہُ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ مِنْ حَرَکَۃٍ وَلَا سُکُوْنٍ اِلَّا بِمَشِیْئَۃِ اللّٰہِ سُبْحَانَہُ۔))
’’ایمان بالقدر کے درجات میں سے دوسرا درجہ اللہ تعالیٰ کی مشیت نافذہ اور قدرت کاملہ کا ہے۔ یعنی اس بات پر ایمان رکھنا کہ جو کچھ اللہ چاہے گا ہو گا اور جو وہ نہیں چاہے گا نہیں ہوگا، اور یہ کہ آسمانوں اور زمین میں ہر حرکت و سکون اللہ تعالیٰ کی مشیت کے تابع ہے۔‘‘
شرح:…یعنی تو اس بات پر ایمان رکھے کہ اللہ تعالیٰ کی مشیت ہر چیز میں نافذ ہے، وہ چیز اس کے اپنے فعل سے تعلق رکھتی ہو یا مخلوق کے افعال سے،ا ور یہ کہ اس کی قدرت ہمہ گر ہے۔
﴿وَ مَا کَانَ اللّٰہُ لِیُعْجِزَہٗ مِنْ شَیْئٍ فِی السَّمٰوٰتِ وَ لَا فِی الْاَرْضِ اِنَّہٗ کَانَ عَلِیْمًا قَدِیْرًاo﴾ (فاطر:۴۴)
’’اور اللہ ایسا نہیں ہے کہ اسے عاجر کر سکتی ہو کوئی بھی چیز آسمانوں میں اور نہ زمین میں ، یقینا وہ خوب علم والا، خوب قدرت والا ہے۔‘‘
ایمان بالقدر کا یہ درجہ دو چیزوں کو متضمن ہے؛ مشیت اور خلق۔
جہاں تک مشیت کا تعلق ہے تو ہمارے لیے یہ ایمان رکھنا ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ کی مشیت ہر چیز میں نافذ ہے اور اس کی قدرت اس کے افعال اور مخلوق کے افعال میں سے ہر شے کو شامل ہے۔
|