Maktaba Wahhabi

444 - 552
مشیت کا اس کے اپنے افعال کو شامل ہونے کا معاملہ تو ظاہر ہے۔ جب کہ اس کا اس کی مخلوق کے افعال کو شامل ہونا اس لیے ہے کہ ساری مخلوق اللہ کا ملک ہے اور اس کے ملک میں وہی کچھ ہو سکتا ہے جسے وہ چاہے۔اس کی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے: ﴿ فَلَوْ شَاءَ لَهَدَاكُمْ أَجْمَعِينَ ﴾ (الانعام:۱۴۹)’’اگر اللہ چاہتا تو تم سب کو ہدایت دے دیتا۔‘‘ اس کی دوسری دلیل ہے: ﴿وَ لَوْ شَآئَ رَبُّکَ لَجَعَلَ النَّاسَ اُمَّۃً وَّاحِدَۃًo﴾ (ہود:۱۱۸) ’’اور اگر تیرا رب چاہتا تو سب لوگوں کو ایک ہی جماعت کر دیتا۔‘‘ اور تیسری دلیل ہے: ﴿وَ لَوْ شَآئَ اللّٰہُ مَا اقْتَتَلَ الَّذِیْنَ مِنْ بَعْدِہِمْ مِّنْ بَعْدِ مَا جَآئَ تْہُمُ الْبَیِّنٰتُ وَ لٰکِنِ اخْتَلَفُوْا فَمِنْہُمْ مَّنْ اٰمَنَ وَ مِنْہُمْ مَّنْ کَفَرَ وَ لَوْ شَآ ئَ اللّٰہُ مَا اقْتَتَلُوْا﴾ (البقرہ:۲۵۳) ’’اور اگر اللہ چاہتا تو نہ لڑتے وہ لوگ جو ان کے بعد تھے اس کے بعد کہ آچکے تھے ان کے پاس واضح دلائل، لیکن انہوں نے اختلاف کیا، پھر ان میں سے کچھ تو وہ تھے جو ایمان لائے، اور کچھ وہ تھے جنہوں نے کفر کیا۔ اور اگر اللہ چاہتا تو وہ نہ مڑتے۔‘‘ یہ آیات کریمہ اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ بندوں کے افعال اللہ تعالیٰ کی مشیت سے تعلق رکھتے ہیں ۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿وَمَا تَشَآئُ وْنَ اِِلَّآ اَنْ یَّشَآئَ اللّٰہُ﴾ (الدہر:۳۰)’’اور تم نہیں چاہتے مگر یہ کہ اللہ چاہے۔‘‘ یہ آیت بھی اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ بندے کی مشیت اللہ تعالیٰ کی مشیت کے تابع ہے۔ ٭ مؤلف رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ((لَا یَکُوْنُ فِیْ مُلُکِہِ مَا لَا یُرِیْدُ۔)) ’’اس کے ملک میں وہی کچھ ہو سکتا ہے جو وہ چاہے۔‘‘ شرح:…مؤلف رحمہ اللہ کی یہ عبارت تفصیل طلب ہے: اس کے ملک میں ارادہ کونیہ کے ساتھ تو وہی کچھ ہو سکتا ہے جو وہ چاہے۔ مگر ارادہ دو قسموں میں منقسم ہے: ارادہ کونیہ اور ارادہ شرعیہ۔ ارادہ کونیہ مشیت کے معنی میں ہوتا ہے، اس کی مثال حضرت نوح علیہ السلام کا اپنی قوم سے یہ ارشاد ہے : ﴿وَ لَا یَنْفَعُکُمْ نُصْحِیْٓ اِنْ اَرَدْتُّ اَنْ اَنْصَحَ لَکُمْ اِنْ کَانَ اللّٰہُ یُرِیْدُ اَنْ یُّغْوِیَکُمْ﴾ (ہود:۳۴) ’’اور تمہیں میری نصیحت نفع نہ دے گی اگر میں ارادہ بھی کروں تمہیں نصیحت کرنے کا اگر اللہ ارادہ کرے تمہیں گمراہ کرنے کا۔‘‘ اور ارادہ شرعیہ میں محبت کا معنی پایا جاتا ہے۔ اس کی مثال یہ ارشاد باری ہے:
Flag Counter