شہادت محمد رسول اللّٰہ کا معنی
٭ مؤلف رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
((وَاَشْہَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہُ وَرَسُوْلُہ۔)) ’’اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد اس کے بندے اور اس کے رسول ہیں ۔‘‘
شرح:… [وَاَشْہَدُ]سے متعلقہ بحث ابھی اوپر گزری ہے۔
[مُحَمَّدًا]… آپ کا شجرہ نسب اس طرح سے ہے: محمد بن عبداللہ بن عبدالمطلب قریشی ہاشمی، آپ حضرت اسماعیل بن ابراہیم علیہما السلام کی اولاد سے ہیں اور سب لوگوں سے زیادہ شریف النسب۔
نبی کریم علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے بندے اور اس کے رسول ہیں ، آپ سب لوگوں سے زیادہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے والے تھے، آپ شب میں اس قدر طویل قیام فرماتے کہ آپ کے قدموں پر ورم آجاتا۔ آپ سے کہا گیا: جب اللہ تعالیٰ نے آپ کے اگلے پچھلے تمام گناہ معاف کر دیئے ہیں تو پھر اس قدر طویل قیام کیوں فرماتے ہیں ؟ اس پر آپ نے فرمایا:’’کیا میں اس کا شکر گزار بندہ نہ بنوں ؟‘‘[1] اور یہ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے شکر گزار بندوں کی تعریف کی ہے۔ چنانچہ اس نے نوح علیہ السلام کے بارے میں فرمایا: ﴿اِنَّہٗ کَانَ عَبْدًا شَکُوْرًا﴾ (الاسراء: ۳) ’’بے شک وہ شکر گزار بندہ تھا۔‘‘نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے چاہا کہ میں بھی شکر گزاری کی اس منزل پر پہنچوں اور اس کی عبادت کا حق ادا کروں ۔ آپ سب لوگوں سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اختیار کرنے والے، اس سے ڈرنے والے اور جو کچھ اس کے پاس ہے اس کے حصول کے لیے بڑی رغبت رکھنے والے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے بندے تھے، اور عبودیت کے تقاضے کے تحت آپ نہ تو اپنے لیے اور نہ ہی کسی دوسرے کے لیے نفع یا نقصان کے مالک تھے، آپ کا ربوبیت میں مطلقاً کوئی حق نہیں تھا، آپ اللہ تعالیٰ کے محتاج اور اس کے فقیر تھے، آپ رب تعالیٰ کے سامنے دست سوال دراز کرتے، اس سے دعا کرتے، اس سے امیدیں وابستہ رکھتے اور اس سے خائف رہتے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے آپ کو یہ اعلان کرنے کا حکم دیا کہ میں ان امور میں سے کسی بھی چیز کا مالک نہیں ہوں ۔ ارشاد ہوتا ہے:
﴿قُلْ لَّآ اَمْلِکُ لِنَفْسِیْ نَفْعًا وَّ لَا ضَرًّا اِلَّا مَا شَآئَ اللّٰہُ وَ لَوْ کُنْتُ اَعْلَمُ الْغَیْبَ لَاسْتَکْثَرْتُ مِنَ الْخَیْرِ وَ مَا مَسَّنِیَ السُّوْٓئُ﴾ (الاعراف: ۱۸۸)
’’آپ کہہ دیں کہ میں نہیں ہوں مالک اپنی جان کے لیے کسی نفع کا اور نہ نقصان کا اور اگر میں غیب جانتا ہوتا تو ضرور بہت سے فائدے جمع کر لیتا۔‘‘‘
اور دوسری جگہ ارشاد ہوا:
﴿قُلْ لَّآ اَقُوْلُ لَکُمْ عِنْدِیْ خَزَآئِنُ اللّٰہِ وَ لَآ اَعْلَمُ الْغَیْبَ وَ لَآ اَقُوْلُ لَکُمْ اِنِّیْ مَلَکٌ اِنْ اَتَّبِعُ اِلَّا مَا یُوْحٰٓی اِلَیَّ﴾ (الانعام: ۵۰)
’’فرما دیں کہ میں تم سے یہ نہیں کہتا کہ میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں اور نہ میں غیب جانتا ہوں اور نہ تم سے یہ
|