اس جگہ السَّمَآئُ محذوف فعل کا فاعل ہے اور تقدیری عبارت اس طرح ہے: اذا انشقت السماء، اس بارے میں دوسرا قول یہ ہے کہ ﴿اَحَدٌ ﴾ فاعل مقدم ہے اور فعل (استجار) مؤخر۔ اس صورت میں تقدیری عبارت کی کوئی ضرورت نہیں رہتی۔
تیسرا قول یہ ہے کہ ﴿اَحَدٌ﴾ مبتدا اور ﴿اسْتَجَارَکَ﴾ اس کی خبر ہے۔
میرے نزدیک نحویوں کے آسان ترین قول کو اختیار کرنا زیادہ مناسب ہے۔ بشرطیکہ کوئی شرعی مانع نہ ہو۔
[اسْتَجَارَکَ]… یعنی وہ آپ کے جوار کا طالب ہو اور جوار عصمت وحمایت کے معنی میں ہے۔
[حَتّٰی یَسْمَعَ]… ﴿حَتّٰی﴾ غایت کے لیے ہے۔ معنی یہ ہے: اگر مشرکین میں سے کوئی شخص آپ سے پناہ کا طالب ہو تاکہ وہ کلام اللہ کو سن سکے تو اسے پناہ دے دیں یہاں تک کہ وہ کلام اللہ کو سن لے، کلام اللہ سے مراد بالاتفاق قرآن مجید ہے۔
اللہ تعالیٰ نے ﴿فَاَجِرْہُ حَتّٰی یَسْمَعَ کَلٰمَ اللّٰہِ﴾ فرمایا، اس لیے کہ کلام اللہ اثر کیا کرتا ہے۔ جیسا کہ فرمایا گیا: ﴿اِِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَذِکْرٰی لِمَنْ کَانَ لَہٗ قَلْبٌ اَوْ اَلْقَی السَّمْعَ وَہُوَ شَہِیْدٌo﴾ (قٓ: ۳۷) ’’یقینا اس میں نصیحت ہے اس کے لیے جو حب دل ہو یا وہ کان لگائے اور وہ خود بھی متوجہ ہو۔‘‘ کتنے ہی ایسے لوگ ہیں جو کتاب اللہ کو سن کر ایمان لے آئے، مگر اس کے لیے اسے مکمل طور پر سمجھنا شرط ہے۔
اہل سنت کا عقیدہ کہ قرآن کلام اللہ ہے اور اس کے دلائل
[کَلٰمَ اللّٰہِ]… اللہ تعالیٰ نے کلام کو اپنی ذات کی طرف مضاف کیا، اور یہ اس بات کی دلیل ہے کہ قرآن، کلام اللہ ہے۔
قرآن کے بارے میں اہل سنت کا عقیدہ یہ ہے کہ قرآن کلام اللہ ہے، منزل من اللہ ہے، غیر مخلوق ہے، اسی کی طرف سے اس کا آغاز ہوا اور اسی کی طرف لوٹ جائے گا۔
قرآن کے کلام اللہ ہونے کی دلیل: ﴿فَاَجِرْہُ حَتّٰی یَسْمَعَ کَلٰمَ اللّٰہِ﴾ (التوبۃ: ۶) ’’اسے پناہ دے دیں حتیٰ کہ وہ کلام اللہ کو سن لے۔‘‘
اس کے منزل من اللہ ہونے کے دلائل: ﴿شَہْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْٓ اُنْزِلَ فِیْہِ الْقُرْاٰنُ﴾ (البقرۃ: ۱۸۵) رمضان کا مہینہ وہ ہے جس میں قرآن اتارا گیا۔‘‘ ﴿اِِنَّآ اَنزَلْنٰـہُ فِیْ لَیْلَۃِ الْقَدْرِo﴾ (القدر: ۱) ’’بیشک ہم نے اس قرآن کو شب قدر میں اتارا۔‘‘ ﴿وَّ نَزَّلْنٰہُ تَنْزِیْلًا﴾ (الاسراء: ۱۰۶) ’’اور ہم نے اسے آہستہ آہستہ نازل کیا۔‘‘
قرآن کے غیر مخلوق ہونے کی دلیل: ﴿اَ لَا لَہُ الْخَلْقُ وَ الْاَمْرُ﴾ (الاعراف: ۵۴) ’’خبردار! مخلوق بھی اسی کی ہے اور حکم بھی اسی کا ہے۔‘‘ اس جگہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے خلق اور امر کو دو الگ الگ چیزیں قرار دیا ہے، اس لیے کہ عطف مغایرت کا تقاضا کرتا ہے اور قرآن کا شمار امر میں ہوتا ہے۔ اس کی دلیل یہ ارشاد ربانی ہے:
﴿وَکَذٰلِکَ اَوْحَیْنَا اِِلَیْکَ رُوْحًا مِنْ اَمْرِنَا مَا کُنْتَ تَدْرِی مَا الْکِتٰبُ وَلَا الْاِِیْمَانُ وَلٰـکِنْ جَعَلْنَاہُ نُوْرًا نَہْدِیْ بِہٖ مَنْ نَّشَائُ مِنْ عِبَادِنَا﴾ (الشوریٰ: ۵۲)
|