مِّنْ مَّزِیْدٍ۔
۳۔ اللہ تعالیٰ کے فضل کا اثبات، اللہ تعالیٰ نے جہنم سے اسے بھرنے کا وعدہ فرمارکھا ہے: ﴿لَاَمْلَئَنَّ جَہَنَّمَ مِنَ الْجِنَّۃِ وَ النَّاسِ اَجْمَعِیْنَo﴾ (ہود: ۱۱۹) ’’میں جہنم کو جنوں اور انسانوں سے ضرور بھروں گا سب کے سب سے۔‘ـ‘ جب جہنمی جہنم میں داخل ہوجائیں گے اور اس میں ابھی مزید گنجائش باقی ہوگی تو وہ مزید کا مطالبہ کرے گی، اس پر اللہ اس میں اپنا قدم رکھ دے گا اور وہ سکڑ جائے گی، اور اس طرح سکڑنے سے بھر جائے گی۔ یہ اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم کا مظہر ہے، وگرنہ وہ اس بات پر بھی قادر ہے کہ کچھ نئے لوگ پیدا فرما کر اسے ان سے بھر دے، مگر وہ کسی کو بھی کسی گناہ کے بغیر عذاب نہیں دیتا، مگر جنت کا معاملہ اس کے بالکل برعکس ہے، جب اس میں کچھ گنجائش باقی رہ جائے گی تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن کچھ نئے لوگ پیدا فرمائے گا، اور پھر انہیں اپنے فضل ورحمت سے جنت میں داخل فرمائے گا۔
۴۔ اللہ تعالیٰ کا قدم حقیقی ہے جو کہ مخلوق کے پاؤں کے مماثل نہیں ہے، اہل سنت اس جیسی صفت کو صفت ذاتیہ خبریہ کے نام سے موسوم کرتے ہیں ، اس لیے کہ اس کا علم صرف خبر کے ذریعہ سے ہوتا ہے، نیز اس لیے بھی کہ اس کا مسمی ہمارے اجزا اور بعض حصے ہیں ، مگر ہم اللہ تعالیٰ کی نسبت سے انہیں ابعاض اور اجزا نہیں کہہ سکتے، اس لیے کہ یہ اللہ کے لیے ممتنع ہے۔
اس مسئلہ میں اہل سنت والجماعت کے مخالفین اور ان کا ردّ
اشاعرہ اور اہل تحریف اس بارے بھی اہل سنت سے مختلف رائے رکھتے ہیں ، وہ ’’یَضَعُ عَلَیْہَا رِجْلَہٗ‘‘ کا معنی یہ کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ جہنم پر اس کے مستحقین کی ایک جماعت رکھ دے گا، اس لیے کہ (رجل) جماعت کے معنی میں بھی مستعمل ہے، جس طرح کہ حضرت ایوب علیہ السلام کے واقعہ میں آتا ہے: ’’اَرْسَلَ اللّٰہُ اِلَیْہِ رِجْلُ جَرَادٍ مِّنْ ذَہَبٍ‘‘[1] یعنی اللہ تعالیٰ نے ان کی طرف سونے کی ٹڈیوں کی ایک جماعت بھیجی، اس جگہ (رجل) جماعت کے معنی میں ہے۔
مگر یہ باطل تحریف ہے، اس لیے کہ ’’عَلَیْہَا ‘‘ اس سے مانع ہے۔
نیز، اللہ تعالیٰ کا اہل جہنم کو اپنی ذات کی طرف منسوب کرنا ممکن نہیں ہے، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف کسی چیز کی اضافت کا مطلب اس کی تکریم وتشریف ہوا کرتا ہے۔
اسی طرح وہ ’’قدم‘‘ کو مقدم کے معنی میں لیتے ہیں ، یعنی اللہ تعالیٰ جہنم پر ایسے لوگوں کو رکھے گا، جنہیں وہ اس کی طرف آگے بڑھائے گا۔
مگر یہ معنی بھی باطل ہے، اس لیے کہ باری تعالیٰ اہل جہنم کو آگے نہیں کرے گا، بلکہ انہیں ﴿یُدَعُّوْنَ اِِلٰی نَارِ جَہَنَّمَ دَعًّا﴾ (الطور: ۱۳) ’’آتش جہنم کی طرف دھکا دیا جائے گا۔‘‘
آپ نے دیکھا کہ یہ محرفین ایک چیز سے بھاگے اور اس سے کہیں بری چیز میں جاپڑے۔
|