کر رہا ہے اس کا عالم ہو، اور متعلقہ موضوع کا علم رکھتا ہو۔
اس حدیث سے اللہ کی صفت کلام کا اثبات ہوتا ہے اور یہ کہ وہ ایسی آواز میں ہوتی ہے جسے سنا اور سمجھا جا سکتا ہے۔
دونوں احادیث سے ماخوذ سلوکی فوائد
پہلی حدیث میں سلوکی فوائد: جس انسان کو یہ معلوم ہوگا کہ ہزار میں سے نو سو ننانوے کا لشکر جہنم میں جائے گا تو وہ اس بات سے ڈرے گا کہ کہیں مجھے بھی اس لشکر میں شامل نہ کر لیا جائے۔
دوسری حدیث سے یہ فائدہ حاصل ہوتا ہے کہ جب انسان اس گفتگو کا تصور کرے گا جو اس کے اور اس کے رب کے درمیان ہوگی تو وہ اس بات سے خائف ہوگا کہ میں اس موقع پر کہیں رسوا نہ ہو جاؤں ، اس خوف کے پیش نظر وہ اللہ سے ڈرتے ہوئے ارتکاب معاصی سے باز آجائے گا۔
اللہ کے لیے صفت علو اور دیگر صفات کا اثبات
٭ آٹھویں حدیث علو اور دیگر صفات کے اثبات میں :
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مریض کو دم کرنے کے بارے میں ارشاد ہے:
((رَبُّنَا اللّٰہُ الَّذِیْ فِی السَّمَائِ ! تَقَدَّسَ اسْمُکَ ، اَمْرُکَ فِي السَّمَائِ وَالْاَرْضِ ؛ کَمَا رَحْمَتُکَ فِي السَّمَائِ ؛ فَاجْعَلْ رَحْمَتَکَ فِی الْاَرْضِ ، اغْفِرْلَنَا حُوْبَنَا وَخَطَایَانَا ، اَنْتَ رَبُّ الطَّیِّبِیْنَ ، اَنْزِلْ رَحْمَۃً مِنْ رَحْمَتِکَ وَشِفَائً مِنْ شِفَائِکَ عَلٰی ہٰذَا الْوَجِعِ ؛ فَیَبْرَأَ۔)) رواہ ابوداود وغیرہ[1]
’’ہمارے پروردگار! جو آسمان میں ہے! تیرا نام بڑا مقدس ہے، تیرا حکم آسمان اور زمین میں نافذ ہے، جس طرح تیری رحمت آسمان میں ہے اسی طرح اپنی رحمت زمین میں بھی فرما دے، ہمارے کبیرہ وصغیرہ تمام گناہ معاف فرما دے، تو پاک لوگوں کا رب ہے، اس بیماری پر اپنی رحمت سے رحمت نازل فرما اور اپنی شفا سے شفا نازل فرما، تاکہ یہ تندرست ہو جائے۔‘‘ یہ حدیث حسن ہے۔ اسے ابوداؤد وغیرہ نے روایت کیا۔
شرح:…[فِیْ رُقْیَۃِ الْمَرِیْضِ]… یہ مصدر کی مفعول کی طرف اضافت کے باب سے ہے، یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد دم کے بارے میں ہے جب آپ مریض پر پڑھ کر اسے دم کرتے۔
[رَبُّنَا اللّٰہُ الَّذِیْ فِی السَّمَائِ] …فی السماء، پر گزشتہ سطور میں گفتگو ہو چکی ہے۔
|