Maktaba Wahhabi

315 - 552
توبہ کرنے کی پانچ شرائط ہیں پہلی شرط: اللہ تعالیٰ کے لیے مخلص ہونا، بایں طور کہ اس کے پیچھے دنیاوی مقاصد کار فرما نہ ہوں ۔ دوسری شرط: معصیت پر ندامت۔ تیسری شرط: ارتکاب معصیت سے باز آجانا، اگر توبہ کاتعلق لوگوں کے حقوق سے ہو تو وہ حق متعلقہ لوگوں کو لوٹا دیا جائے۔ چوتھی شرط: مستقبل میں معصیت کے عدم ارتکاب کا عزم۔ پانچویں شرط: توبہ قبولیت کے وقت میں کی جائے، یعنی موت سے قبل توبہ کی جائے، مغرب کی طرف سے سورج طلوع ہونے کے بعد بھی توبہ کا دروازہ بند کر دیا جائے گا۔فرمان باری تعالیٰ ہے: ﴿وَ لَیْسَتِ التَّوْبَۃُ لِلَّذِیْنَ یَعْمَلُوْنَ السَّیِّاٰتِ حَتّٰٓی اِذَا حَضَرَ اَحَدَہُمُ الْمَوْتُ قَالَ اِنِّیْ تُبْتُ الْئٰنَ﴾ (النساء: ۱۸) ’’اور ان لوگوں کی توبہ قبول نہیں ہوتی جو گناہ پر گناہ کیے چلے جاتے ہیں ، یہاں تک کہ جب ان میں سے کسی کو موت آنے لگتی ہے تو وہ کہنے لگتا ہے کہ میں اب توبہ کرتا ہوں ۔‘‘ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے صحیح طور پر ثابت ہے کہ مغرب کی طرف سے سورج طلوع ہونے پر توبہ کا وقت ختم ہو جائے گا، اس وقت لوگ ایمان لائیں گے مگر اس کا وقت گزر چکا ہوگا۔ ﴿لَا یَنْفَعُ نَفْسًا اِیْمَانُہَا لَمْ تَکُنْ اٰمَنَتْ مِنْ قَبْلُ اَوْکَسَبَتْ فِیْٓ اِیْمَانِہَا خَیْرًا﴾[1] (الانعام: ۱۵۸) ’’نہیں فائدہ دے گا کسی شخص کو اس کا ایمان جو اس سے قبل ایمان نہیں لایا تھا یا ایمان کی حالت میں نیک اعمال نہ کیے تھے۔‘‘ یہ پانچ شرائط ہیں جن کے متحقق ہونے پر ہی توبہ درست ہوگی۔ کیا توبہ صحیح ہونے کے لیے تمام گناہوں سے توبہ کرنا شرط ہے؟ اس بارے علماء کا اختلاف ہے، لیکن صحیح یہ ہے کہ یہ شرط نہیں ہے، دوسرے گناہوں پر اصرار کے باوجود کسی ایک گناہ سے توبہ صحیح ہو جائے گی۔[2] مگر یہ توبہ مطلق نہیں بلکہ مقید ہوگی۔ مثلاً اگر کوئی شخص شراب نوشی کرتا اور سودی لین دین کرتا ہے، اس نے شراب نوشی سے توبہ کر لی تو اس کی اس گناہ سے توبہ صحیح ہوگی جبکہ سود خوری کا گناہ اس کے ذمہ باقی رہے گا، مگر علی الاطلاق توبہ کرنے والوں کے مرتبہ کے حصول سے قاصر رہے گا، اس لیے کہ وہ بعض دوسرے گناہوں پر مصر ہے۔ ایک آدمی نے توبہ کی تمام شرائط مکمل کرنے کے بعد دوبارہ اس گناہ کا ارتکاب کر لیا، تو اس سے اس کی پہلی توبہ ٹوٹ نہیں
Flag Counter