جبکہ بعض دوسرے علماء کے نزدیک یہ دو الگ فرشتے ہیں ، اور اللہ فرماتا ہے:
﴿وَمَا یَعْلَمُ جُنُوْدَ رَبِّکَ اِِلَّا ہُوَ﴾ (المدثر:۳۱)
’’اور تیرے رب کے لشکروں کو صرف وہی (اللہ) جانتا ہے۔‘‘
فرشتوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’آسمان چڑچڑاتا ہے اور اسے چڑچڑانا ہی چاہیے، آسمان میں ایک بالشت (یا فرمایا چار انگلیوں ) کے برابر بھی جگہ نہیں ہے، مگر اس میں کوئی نہ کوئی فرشتہ اللہ تعالیٰ کے لیے قیام کررہا ہے یا رکوع کررہا ہے یا سجدہ کررہا ہے۔ [1] جبکہ آسمان کی وسعت کا اندازہ بھی نہیں لگایا جاسکتا، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
﴿وَالسَّمَآئَ بَنَیْنٰہَا بِاَیْدٍ وَّاِِنَّا لَمُوْسِعُوْنَ﴾ (الذاریات:۴۷)
’’اور ہم نے آسمان کو اپنی قوت سے بنایا، اور یقینا ہم ضرور وسعت دینے والے ہیں ۔‘‘
اس بات میں کوئی انوکھا پن نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر مدفون شخص کے لیے دو نئے فرشتوں کو معرض وجود میں لا کر انہیں اس کے پاس بھیج دے، اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے۔
[مَنْ رَّبُکَ] … یعنی تیرا رب کون ہے جس نے تجھے پیدا فرمایا اور تو صرف اسی کی عبادت کیا کرتا تھا؟ ہم نے یہ معنی اس لیے کیا تاکہ یہ کلمہ اپنے اندر توحید ربوبیت اور توحید الوہیت کو سمو سکے۔
[مَا دِیْنُکَ] … یعنی تو کس قسم کے اعمال کے ساتھ اپنے رب کی فرمانبرداری کیا کرتا اور کس کا قرب حاصل کیا کرتا تھا؟
[مَنْ نَّبِیُّکَ] … یعنی تو کس نبی پر ایمان رکھتا اور اس کی اتباع کیا کرتا تھا؟
مومنین کی دُنیا و آخرت میں ثابت قدمی
٭ مؤلف رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
((فَـ﴿یُثَبِّتُ اللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَ فِی الْاٰخِرَۃِ﴾ (ابراہیم:۲۷)
’’اللہ تعالیٰ ایمان والوں کو پکی بات کی وجہ سے دنیوی زندگی میں بھی اور آخرت میں بھی ثابت قدم رکھتا ہے۔‘‘
یعنی انہیں اس طرح ثابت قدم رکھتا ہے کہ وہ کسی تردد اور توقف کے بغیر سوالات کا جواب دے دیتے ہیں ۔ قول ثابت سے مراد توحید ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
﴿اَلَمْ تَرَکَیْفَ ضَرَبَ اللّٰہُ مَثَلًا کَلِمَۃً طَیِّبَۃً کَشَجَرَۃٍ طَیِّبَۃٍ اَصْلُہَا ثَابِتٌ وَّ فَرْعُہَا فِی السَّمَآئِ﴾ (ابراہیم:۲۴)
’’کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ کس طرح بیان کی اللہ نے مثال پاکیزہ بات کی کہ جیسے ایک پاکیزہ درخت ہو، جس
|