اسے قبول بھی کرتے ہیں اور اس سے محبت بھی کرتے ہیں ۔
اللہ کے فرمان فَـلَا وَ رَبِّکَ لَا……وَیُسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا کی تفسیر
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
﴿فَـلَا وَ رَبِّکَ لَا یُؤْمِنُوْنَ حَتّٰی یُحَکِّمُوْکَ فِیْمَاشَجَرَ بَیْنَہُمْ ثُمَّ لَایَجِدُوْا فِیْٓ اَنْفُسِہِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَیْتَ وَیُسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًاo﴾ (النساء: ۶۵)
’’قسم ہے تمہارے رب کی وہ ایمان والے نہیں بنیں گے یہاں تک کہ وہ آپ کو ہر اس چیز میں حکم مان لیں جس میں ان کا جھگڑا ہو، پھر اپنے دلوں میں اس سے تنگی محسوس نہ کریں جو آپ نے فیصلہ کیا ہو، اور وہ اسے دل وجان سے تسلیم کر لیں ۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے اپنی ربوبیت کی تاکیدی قسم اٹھا کر اس شخص سے ایمان کی نفی فرمائی ہے جو مندرجہ ذیل تین امور کا اہتمام نہیں کرتا۔
امر اول:… نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم و فیصل تسلیم کرنا ﴿حَتّٰی یُحَکِّمُوْکَ﴾ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ کسی اور کو حکم تسلیم کرنے والا مومن نہیں ہے، اس طرح یا تو اس نے دائرۂ اسلام سے خارج کرنے والے کفر کا ارتکاب کیا یا اس سے کم تر درجے کے کفر کا۔
امر دوم:…ان کے حکم پر شرح صدر کا حاصل ہونا، بایں طور کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلہ پر اپنے دلوں میں کوئی تنگی محسوس نہ کریں بلکہ اسے خوشی خوشی شرح صدر کے ساتھ قبول کر لیں ۔
امر سوم:…اسے دل وجان سے پورا پورا تسلیم کرنا، تسلیم کی مصدر کے ساتھ تاکید کی گئی ہے، جس سے مراد تسلیم کامل ہے۔ میرے مسلمان بھائیو! کہیں ایسا نہ ہو کہ ان امور کی پاسداری نہ کرنے کی وجہ سے تم سے تمہارا ایمان چھین لیا جائے۔
ہم اس مسئلہ کی وضاحت کے لیے ایک مثال بیان کرنا چاہیں گے: کسی شرعی مسئلہ کے حکم کے بارے میں دو آدمیوں میں جھگڑا ہوا تو ان میں سے ایک شخص نے سنت سے استدلال کیا تو دوسرے شخص کو اس سے شدید تنگی محسوس ہوئی کہ یہ شخص مجھے میرے متبوع کی اتباع سے ہٹا کر اتباع سنت پر لانا چاہتا ہے، یقینا اس شخص کا ایمان ناقص ہے، اس لیے کہ حقیقی مومن جب کتاب اللہ یا سنت رسول اللہ سے کسی نص کے حصول میں کامیاب ہو جاتا ہے تو اسے یوں لگتا ہے جیسے بہت زیادہ مال غنیمت اس کے ہاتھ آگیا ہو، وہ اس پر خوش ہوتا اور اس بات پر اللہ تعالیٰ کی حمدوثنا بیان کرتا ہے کہ اس نے مجھے ہدایت کی توفیق بخشی، جبکہ دوسرا شخص اپنی رائے کے لیے بڑا متعصب واقع ہوا ہے، جس کی ہر ممکن کوشش ہوتی ہے کہ وہ نصوص شرعیہ کو توڑ مروڑ کر انہیں اپنی رائے سے ہم آہنگ کر دے، اسے نہ تو اللہ کے حکم کی کوئی پرواہ ہوتی ہے اور نہ اس کے رسول کے حکم کی۔ یقینا ایسا شخص عظیم خطرہ سے دوچار ہے۔
ارادہ کی اقسام
ارادے کی دو قسمیں ہیں :
|