قسم اوّل: ارادہ کونیہ، یہ ارادہ مشیت کے مترادف ہے، اس میں اَرَادَ (شَائَ) کے معنی میں ہے اور یہ ارادہ۔
اولاً: اللہ تعالیٰ کی پسندیدہ اور غیر پسندیدہ تمام باتوں سے تعلق رکھتا ہے۔
ثانیاً: اس میں وقوع مراد ضروری ہوتا ہے، یعنی اللہ تعالیٰ نے جس چیز کا ارادہ کیا ہو اس کا وقوع پذیر ہونا لازم ہوتا ہے، اس کا عدم وقوع کسی بھی صورت ممکن نہیں رہتا۔
قسم دوم: ارادہ شرعیہ، یہ ارادہ محبت کے مترادف ہے، اور اس میں (اَرادَ) (اَحَبّ) کے معنی میں ہوتا ہے۔ اور یہ ارادہ:
اولاً: اللہ تعالیٰ کی پسندیدہ چیزوں کے ساتھ خاص ہے، اللہ رب العزت ارادہ شرعیہ کے ساتھ کفر وفسوق کا ارادہ نہیں کرتا۔
ثانیًا: اس میں مراد کا وقوع پذیر ہونا امر لازم نہیں ہوتا، یعنی ایسا ہو سکتا ہے کہ اللہ کسی چیز کا ارادہ کرے مگر وہ واقع نہ ہو۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ چاہتا ہے کہ لوگ اس کی عبادت کریں ، مگر اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ اس کی یہ مراد پوری بھی ہو، لوگ اس کی عبادت کرتے بھی ہیں اور نہیں بھی کرتے، بخلاف ارادہ کونیہ کے۔ اس طرح دونوں ارادوں میں دو طرح سے فرق پایا جاتا ہے:
ارادۂ کونیہ اور شرعیہ میں فرق
۱۔ ارادہ کونیہ میں مراد کا وقوع پذیر ہونا لازم ہوتا ہے جبکہ ارادہ شرعیہ میں یہ لازم نہیں ہوتا۔
۲۔ ارادہ شرعیہ اللہ تعالیٰ کے پسندیدہ امور کے ساتھ خاص ہے، جبکہ ارادہ کونیہ دو امور سے متعلق ہوتا ہے۔ پسندیدہ امور سے بھی اور غیر پسندیدہ امور سے بھی۔
سوال : اللہ تعالیٰ غیر پسندیدہ امور یعنی کفر وفسوق اور عصیان کا کیسے ارادہ کر سکتا ہے، جبکہ وہ انہیں پسند نہیں کرتا؟
جواب : یہ چیزیں ایک وجہ سے اللہ کی پسندیدہ ہیں اور دوسری وجہ سے غیر پسندیدہ اس لیے کہ ان میں بڑی بڑی مصلحتیں پنہاں ہیں اور مکروہ اس لیے کہ یہ معصیت ہیں اور اس میں کوئی مانع نہیں کہ ایک چیز ایک اعتبار سے محبوب ہو اور دوسرے اعتبار سے مکروہ۔ ایک شخص اپنے لخت جگر کو ڈاکٹر کے پاس لے کر جاتا ہے تاکہ وہ اس کی جلد کاٹ کر اس کے جسم سے زہریلا موذی مادہ نکال دے، ڈاکٹر آلات جراحی سے اسے چیرپھاڑ کر رکھ دیتا ہے۔
بیٹا شدید اذیت میں مبتلا ہے، جبکہ باپ بڑا خوش ہے لیکن کیوں ؟ اس لیے کہ اس اپریشن میں بڑی مصلحت پنہاں ہے۔ جو کہ اس عمل جراحی پر مرتب ہوگی۔
ارادہ باری تعالیٰ کی معرفت حاصل کرنے کے بعد ہم اس سے دو چیزوں کا استفادہ کر سکتے ہیں :
اولاً: ہم اپنی امیدوں اور اپنے جملہ احوال واعمال کو اللہ تعالیٰ کے ساتھ وابستہ رکھیں ، اس لیے کہ ہر شے اس کے ارادہ کے ساتھ وابستہ ہے، یہ چیز ہمارے اندر توکل پیدا کرے گی۔
ثانیاً: ہم وہی کچھ کریں جس کا اللہ تعالیٰ شرعاً ارادہ کرتا ہے، جب ہمیں یہ معلوم ہوگا کہ یہ کام شرعاً اللہ کی مراد اور اس کا محبوب عمل ہے تو یہ چیز اس فعل کے سر انجام دینے کے ہمارے عزم کو تقویت دے گی۔
|