Maktaba Wahhabi

515 - 552
ہوں ۔کرامات کے چار مقاصد ہیں : اولاً: اللہ عزوجل کی کمال قدرت کا بیان، اس لیے کہ خارق عادت چیز کا حصول اللہ کے حکم سے ہوتا ہے۔ ثانیاً:یہ عقیدہ رکھنے والوں کی تکذیب کہ جملہ امور طبیعی اور جبلی طور پر سر انجام پاتے ہیں ، اس لیے کہ اگر طبیعت و جبلت ہی سب کچھ کرتی ہوتی تو جبلت تو ایک ہی انداز کی ہوتی ہے اس میں تغیر نہیں آیا کرتا۔ عادات اور طبیعت میں تغیر آجانا اس بات کی دلیل ہے کہ کائنات کا کوئی خالق و مدبر بھی ہے۔ ثالثاً:کرامات متبوع نبی کی نبوت کی صداقت کی دلیل ہوتی ہیں ، جیسا کہ ہم نے ابھی ذکر کیا۔ رابعاً: ان میں ولی کی کرامت و عزت اور تثبیت کا سامان ہوتا ہے۔ کرامت کی اقسام ٭ مؤلف رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ((فی انواع العلوم و المکاشفات و انواع القدرۃ و التاثیرات۔)) ’’علوم و مکاشفات اور قدرت و تاثیرات کی مختلف قسموں میں ۔‘‘ شرح:…یعنی کرامت کی دو قسمیں ہیں : ایک قسم کا تعلق علوم و مکا شفات کے ساتھ ہے اور دوسری کا قدرت و تاثیرات کے ساتھ۔ ۱۔ جہاں تک علوم ومکاشفات کا تعلق ہے تو ایک انسان ایسے علوم حاصل کر سکتا ہے جو دوسرے کو حاصل نہیں ہوتے۔ ۲۔ رہے مکاشفات، تو کسی انسان پر کچھ ایسی چیزیں منکشف کردی جاتی ہیں جو دوسرے کے لیے منکشف نہیں کی جائیں ۔ علوم کی مثال: حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے بارے میں مذکور ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں ان کی بیوی کے حمل کے بارے میں مطلع کرتے ہوئے بتایا کہ وہ لڑکی ہے۔ مکاشفات کی مثال:امیر المومنین حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ جمعہ کے دن منبر پر پر کھڑے خطبہ ارشاد فرما رہے تھے۔ اس دوران لوگوں نے آپ کو یہ کہتے ہوئے سنا: ساریہ! پہاڑ کی اوٹ میں ہو جائیں ۔ لوگ ان کی اس بات سے بڑے متعجب ہوئے اور پھر ان سے اس بارے میں دریافت کیا؟ تو انہوں نے فرمایا: مجھ پر ساریہ بن زنیم کی صورت حال منکشف کی گئی۔ ساریہ عراق میں ان کے کمانڈر تھے، جنہیں دشمن نے گھیرے میں لے لیا۔ تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے انہیں پہاڑ کی طرف متوجہ کرتے ہوئے فرمایا: ساریہ! پہاڑ کی اوٹ میں چلے جاؤ، جب انہوں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی آواز سنی تو پہاڑ کی اوٹ میں جا کر اپنے آپ کو محفوظ بنا لیا۔[1]
Flag Counter