یورپ اور اس کے آس پاس کے علاقوں میں چلا جاتا ہے؟ کیا اس طرح وہ ہمیشہ نزول فرمائے رہتا ہے؟ اس کے جواب میں ہم یہ عرض کریں گے کہ آپ پہلے اس بات پر ایمان لائیں کہ اللہ تعالیٰ اس معین وقت پر نزول فرماتا ہے۔
جب آپ اس بات پر ایمان لے آئیں گے، تو اس کے بعد آپ پر کوئی ذمہ داری عائد نہیں رہے گی، آپ کیوں ؟ اور کس طرح؟ کی بحث چھوڑیں اور اس بات پر ایمان لائیں کہ جب یہ معین وقت سعودی عرب میں ہوتا ہے تو بھی اللہ نزول فرماتا ہے، پھر جب یہ وقت امریکہ میں ہوتا ہے تو بھی اللہ نزول فرماتا ہے اور جب فجر طلوع ہو جاتی ہے، تو ہر جگہ اس کے حساب سے نزول کا وقت ختم ہو جاتا ہے۔
دریں حالات ہمارا موقف یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وساطت سے ہم تک جو چیز پہنچے ہم اس پر ایمان لائیں اور وہ یہ کہ اللہ تعالیٰ اس وقت آسمان دنیا پر اترتا ہے جب رات کا آخری ثلث باقی رہتا ہے، تو وہ فرماتا ہے: مجھے کون پکارے گا میں اس کی پکار کو قبول کروں ، مجھ سے کون سوال کرے گا میں اسے عطا کروں ، مجھ سے کون بخشش طلب کرے گا میں اسے بخش دوں ؟
فوائد حدیث
اس حدیث کے فوائد مندرجہ ذیل ہیں :
اولاً: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد ’’یَنْزِلُ‘‘ سے اللہ تعالیٰ کے لیے علو کا اثبات ہوتا ہے۔
ثانیاً: آپ علیہ الصلاۃ والسلام کے ارشاد: ’’ینزل ربنا حین یبقی ثلث اللیل الآخر‘‘ سے افعال اختیار یہ کا اثبات ہوتا ہے جو کہ اصلاً صفات فعلیہ ہیں ۔
ثالثاً: آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد: ’’من یدعونی… من یسالنی… من یستغفرنی‘‘ سے اللہ تعالیٰ کے لیے کرم کا اثبات ہوتا ہے۔
رابعاً: اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد: ’’یَقُوْلُ‘‘ سے اللہ تعالیٰ کے لیے قول کا اثبات ہوتا ہے۔
سلوکی فوائد
انسان کو چاہیے کہ وہ رات کے اس حصے کو غنیمت خیال کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے سامنے دست سوال دراز کرے، اسے پکارے اور اس سے طلب مغفرت کرے۔ چونکہ اللہ تعالیٰ (ہَل من) کہہ کر ان امور کا خود شوق دلایا ہے، لہٰذا ہمیں اس موقع سے فائدہ اٹھانا چاہیے، اس لیے کہ آپ کی عمروہی ہے، جسے آپ اللہ تعالیٰ کی اطاعت میں بسر کریں گے۔ زندگی کے یہ دن بیت جائیں گے۔ جس دن آپ کو موت آئے گی گویا کہ اسی دن آپ کی پیدائش ہوگی، جو کچھ گزر گیا اس کی کوئی حقیقت نہیں ۔
٭ دوسری حدیث اثباتِ فرح کے بارے میں :
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(( لَلّٰہُ اَشَدُّ فَرَحًا بِتَوْبَۃِ عَبْدِہِ مِنْ اَحَدِکُمْ بِرَاحِلَتِہِ…)) (متفق علیہ) [1]
|