Maktaba Wahhabi

313 - 552
’’اللہ تعالیٰ اپنے بندے کے توبہ کرنے پر اس شخص سے بھی زیادہ خوش ہوتا ہے جسے اپنی سواری مل جائے…‘‘ شرح:… [لَلّٰہُ ]… یہ (لام) لام ابتداء ہے اور لفظ ((اللّٰہ)) مبتدا۔ [اَشَدُّ] …خبر۔ [فَرَحًا ]…تمییز ہے۔ اس حدیث کی تفصیل یہ ہے کہ کسی مسافر آدمی کے پاس اس کی سواری تھی، جس پر اس کا سامان خوردو نوش موجود تھا، مگر وہ گم ہوگئی، وہ اسے تلاش کرنے لیے نکلا مگر وہ اسے نہ مل سکی، آخر وہ زندگی سے مایوس ہو کر ایک درخت کے نیچے لیٹ کر موت کا انتظار کرنے لگا، پھر اچانک کیا دیکھتا ہے، کہ اس کی اونٹنی کی لگام درخت کے ساتھ لٹکی ہوئی ہے… اس آدمی کی خوشی کا اندازہ صرف وہی شخص کر سکتا ہے جو خود اس قسم کے حالات سے دو چار ہوا ہو… اس نے اس کی لگام پکڑی اور کہنے لگا: میرے اللہ! تو میرا بندہ اور میں تیرا رب ہوں ، اچانک اور بہت زیادہ خوشی ملنے پر اس سے غلطی ہوگئی اور صحیح انداز میں بات کرنے سے قاصر رہا۔ جب بندہ اللہ تعالیٰ کے حضور توبہ کرتا ہے تو وہ اس شخص سے بھی زیادہ خوش ہوتا ہے، جسے مایوسی کے عالم میں اپنی سواری مل جائے۔ مگر یہ بات یاد رہے کہ اللہ تعالیٰ ہماری توبہ کا محتاج نہیں ہے، یہ ہم ہی ہیں جو اپنے جملہ احوال میں اس کے محتاج ہیں ، وہ اپنے لطف وکرم، جودوسخا اور فضل واحسان کی وجہ سے انسان کی توبہ سے اس طرح خوش ہوتا ہے کہ اس کی اور کہیں نظیر نہیں ملتی۔ اس حدیث سے اللہ تعالیٰ کے لیے فرح وخوشی کا اثبات ہوتا ہے، جو کہ حقیقی ہے مگر وہ مخلوق کی فرح وخوشی جیسی نہیں ہے۔ انسان کی نسبت سے فرح ایک ایسی خوشی وشادمانی سے عبارت ہے جو وہ کسی خوش کن چیز کے حصول کے وقت اپنے جی میں محسوس کرتا ہے اور اسے یوں معلوم ہوتا ہے گویا کہ وہ ہوا میں اڑ رہا ہے، مگر اللہ تعالیٰ کی نسبت سے فرح کی یہ تفسیر نہیں کی جا سکتی بلکہ یہ اس کی دیگر تمام صفات کی طرح اس کے شایان شان فرح ہے، جس طرح ہم یہ کہتے ہیں کہ اللہ کی ذات ہے مگر وہ ہماری ذات جیسی نہیں ہے، اس کی صفات ہیں مگر وہ ہماری صفات سے مماثل نہیں ہیں ، اس لیے کہ صفات کے بارے میں بات کرنا ذات کے بارے میں بات کرنے کی فرع ہے۔ ہمارا اللہ تعالیٰ کی فرح پر ایمان ہے، جس طرح کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا اثبات فرمایا ہے، جو کہ ساری مخلوق سے زیادہ اللہ کے بارے میں علم رکھتے ہیں ، ساری مخلوق سے زیادہ مخلوق کے خیر خواہ اور سب سے زیادہ فصیح المقال ہے۔ جب ہم یہ کہیں گے کہ فرح سے مراد حقیقی نہیں بلکہ اس سے مراد ثواب ہے تو اپنے آپ کو خطرات سے دو چار کریں گے، یہ قول اہل تحریف کا ہے کہ اللہ خوش نہیں ہوتا، اس کی خوشی سے مراد توبہ کرنے والے کو ثواب سے نوازنا ہے، یا اس کے لیے ثواب کا ارادہ کرنا ہے، اس لیے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے لیے اس سے الگ مخلوق کا اثبات کرتے ہیں جو کہ ثواب ہے، وہ اس کے لیے ارادہ کا بھی اثبات کرتے ہیں اور فرح کے بارے میں کہتے ہیں کہ اس سے مراد ثواب یا ارادہ ثواب ہے۔ مگر ہمارے نزدیک فرح سے مراد حقیقی فرح ہے، مگر ہماری صفات اللہ کی صفات کے مماثل نہیں ہو سکتیں ۔ اس حدیث
Flag Counter