ہَرَبُوْا مِنَ الرِّقِّ الَّذِیْ خُلِقُوْا لَہُ وَبُلُوْا بِرِقِّ النَّفْسِ وَالشَّیْطَانِ
’’انہیں جس غلامی کے لیے پیدا کیا گیا تھا اس سے راہ فرار اختیار کر گئے اور نفس اور شیطان کی غلامی میں جکڑ دیئے گئے۔‘‘
لوگوں کو جس غلامی کے لیے پیدا کیا گیا ہے وہ اللہ تعالیٰ کی عبودیت وبندگی ہے، لوگ اس غلامی سے بھاگے اور اپنے نفوس اور شیطان کے غلام بن گئے، جو بھی انسان اللہ تعالیٰ کی بندگی سے جان چھڑاتا ہے وہ اپنی خواہشات اور شیطان کی عبودیت میں گرفتار ہو جاتا ہے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
﴿اَفَرَأَ یْتَ مَنِ اتَّخَذَ اِِلٰـہَہُ ہَوَاہُ وَاَضَلَّہُ اللّٰہُ عَلٰی عِلْمٍ﴾ (الجاثیۃ: ۲۳)
’’کیا آپ نے اس شخص کو دیکھا ہے جس نے اپنی خواہش کو اپنا معبود بنا رکھا ہے، اور اللہ نے اسے علم کی بنیاد پر گمراہ کر دیا ہے۔‘‘
[لِیَکُوْنَ لِلْعٰلَمِیْنَ نَذِیْرًا]… اس جگہ لام تعلیل کے لیے ہے اور (لیکون) میں ضمیر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف لوٹتی ہے۔ اس لیے کہ ان کا ذکر زیادہ قریب ہے۔ نیز اس لیے بھی کہ اللہ فرماتا ہے: ﴿لِتُنْذِرَ بِہٖ﴾ (الاعراف: ۲) ’’تاکہ آپ اس کے ساتھ ڈرائیں ۔‘‘ اور دوسری جگہ فرمایا:﴿لِاُنْذِرَکُمْ بِہٖ وَ مَنْ بَلَغَ﴾ (الانعام: ۱۹) ’’تاکہ میں اس قرآن کے ساتھ تمہیں بھی ڈراؤں اور اسے بھی جس تک یہ پہنچے۔‘‘
منذر: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات ہے۔
[لِلْعٰلَمِیْنَ ]… جن وانس کو شامل ہے۔
[الَّذِیْ لَہٗ مُلْکُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ]… اس کا معنی قبل ازیں گزر چکا ہے۔
[وَلَمْ یَتَّخِذْ وَلَدًا وَّلَمْ یَکُنْ لَّہٗ شَرِیْکٌ فِی الْمُلْکِ]… ان دونوں صفات کے معنی گزر چکے ہیں ، یہ دونوں سلبی صفات ہیں ۔
[وَخَلَقَ کُلَّ شَیْئٍ فَقَدَّرَہٗ تَقْدِیْرًا]… خلق:کسی چیز کو خاص انداز میں ایجاد کرنا۔ تقدیر برابر کرنے کے معنی میں ہے، یا ازل میں قضاء کے معنی میں ، مگر پہلا معنی زیادہ صحیح ہے اور اس کی دلیل یہ ارشاد باری ہے: ﴿الَّذِیْ خَلَقَ فَسَوّٰی﴾ (الاعلیٰ: ۲)’’جس نے پیدا کیا پھر برابر کیا۔‘‘
ان آیات سے مستفاد امور
ہم پر اللہ کی عظمت سے آگاہ ہونا اور اسے ہر نقص وعیب سے منزہ قرار دینا واجب ہے، اس طرح اللہ کے ساتھ ہماری محبت میں اضافہ ہوگا اور ہم پہلے سے زیادہ اس کی تعظیم وتوقیر کرنے لگیں گے۔
سورئہ الفرقان کی ان دو آیتوں سے قرآن عظیم کی اہمیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے، قرآن مرجع عباد ہے اگر کوئی انسان امور کی حقیقت سے آگاہ ہونے کا متمنی ہو تو اسے قرآن کی طرف رجوع کرنا چاہیے، اس لیے کہ اسے اللہ نے فرقان کے نام سے
|