’’صبر اپنے نام کی طرح ہے کہ اس کا ذائقہ کڑوا ہوتا ہے۔ مگر اس کا انجام شہد سے بھی میٹھا ہوتا ہے۔‘‘
مگر کڑوی تقدیر پر راضی رہنے والا کڑواہٹ کا مزہ نہیں چکھتا، بلکہ وہ مطمئن رہتا ہے، گویا کہ اس کے نزدیک اس مصیبت کی کوئی اہمیت ہی نہیں ہے۔
جمہور علماء کے نزدیک تقدیر پر راضی رہنا مستحب ہے، شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ اس قول کو پسند کرتے ہیں ، اور یہی صحیح ہے۔
چوتھا مقام: شکر، اور وہ یوں کہ انسان اپنی زبان اور حال سے ’’الحمد للہ‘‘ کہتے ہوئے اس مصیبت کو نعمت خیال کرے۔
مگر اس مقام کے بارے میں کوئی یہ بھی کہہ سکتا ہے کہ یہ کس طرح ممکن ہے؟
ہم کہتے ہیں کہ یہ اس شخص کے لیے ممکن ہے جسے اللہ توفیق عطا فرمائے۔ اس لیے کہ:
اولاً: جب اسے یہ معلوم ہو کہ یہ مصیبت گناہوں کا کفارہ ثابت ہوگی، اور یہ کہ دنیا میں گناہ کی سزا آخرت کی سزا سے بہت آسان ہے، تو یہ مصیبت اس کے نزدیک نعمت قرار پائے گی، جس پر وہ اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرے گا۔
ثانیاً: جب وہ اس مصیبت پر صبر کرے گا، تو ثواب سے نوازا جائے گا، اس لیے کہ اللہ فرماتا ہے:
﴿یُوَفَّی الصَّابِرُوْنَ اَجْرَہُمْ بِغَیْرِ حِسَابٍo﴾ (الزمر: ۱۰)
’’صبر کرنے والوں کو ان کا اجر بغیر حساب کے دیا جائے گا۔‘‘
جب انسان کو اس بات کا علم ہوگا تو وہ اس مصیبت پر اللہ کا شکر ادا کرے گا۔
ثالثاً: ارباب سلوک کے نزدیک صبر کا شمار مقامات عالیہ میں ہوتا ہے، جس کا حصول اس کے اسباب کے وجود سے ہی ممکن ہے، لہٰذا وہ اس مقام کے حصول پر اللہ تعالیٰ کا شکر گزار ہوتا ہے۔
بتایا جاتا ہے کہ کسی عبادت گزار خاتون کی انگلی پر زخم آیا تو اس نے اس پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا، جب اس سے اس کی وجہ پوچھی گئی تو وہ کہنے لگی: اس کے اجر کی حلاوت نے مجھے اس پر صبر کی کڑواہٹ بھلا دی ہے۔ الغرض اہل سنت مصیبت پر صبر کرنے، خوش حالی پر شکر کرنے اور کڑوی تقدیر پر راضی رہنے کا حکم دیتے ہیں ۔
قضاء کے معانی
تتمہ: قضاء کا اطلاق دو معنوں پر ہوتا ہے۔
پہلا معنی : اللہ تعالیٰ کا وہ حکم جو اس کی قضاء اور وصف ہے اس پر ہر حالت میں راضی ہونا واجب ہے۔ وہ قضاء دینی ہو یا کونی، اس لیے کہ وہ اللہ کا حکم ہے، اور اس کی ربوبیت پر پورے طور پر راضی ہونے کے قبیل سے ہے۔
دینی قضاء کی مثال اس کا کسی چیز کے بارے میں وجوب، تحریم اور حلت کا فیصلہ ہے، یہ ارشاد باری تعالیٰ اس سے تعلق رکھتا ہے:
﴿وَ قَضٰی رَبُّکَ اَلَّا تَعْبُدُوْٓا اِلَّآ اِیَّاہُ﴾ (الاسراء: ۲۳)
’’اور تیرے رب نے فیصلہ کن حکم فرمایا ہے کہ نہ عبادت کرنا مگر صرف اس کی۔‘‘
کونی قضاء کی مثال اس کی طرف سے نرمی، شدت، غنی، فقر، صلاح، فساد، حیات اور موت کا فیصلہ ہے۔
|