طرف عہد شکنی کا خوف لاحق رہے گا، ان لوگوں کے بارے میں ارشاد ہوا:
﴿وَ اِمَّا تَخَافَنَّ مِنْ قَوْمٍ خِیَانَۃً فَانْبِذْ اِلَیْہِمْ عَلٰی سَوَآئٍ اِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ الْخَآئِنِیْنَo﴾ (الانفال: ۵۸)
’’اگر آپ کو کسی قوم کی طرف سے دغا بازی کا خوف ہو تو ان کے عہد کو سیدھے طریقے پر انہی کی طرف پھینک دو، یقینا اللہ دغا بازوں سے محبت نہیں کرتا۔‘‘
یعنی تم ان کا عہد توڑ ڈالو اور یہ اعلان کر دو کہ اب ہمارے اور تمہارے درمیان عہد باقی نہیں رہا۔اگر کوئی یہ کہے کہ اگر وہ اپنے عہد پر قائم ہیں تو ہم اسے کیسے توڑ سکتے ہیں ؟
ہم یہ معاہدہ اس لیے توڑ ڈالیں گے کہ ہمیں ان کی طرف سے دغابازی کا خوف لاحق ہے، قرائن سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ کسی بھی دن ہم پر حملہ آور ہو سکتے ہیں ، لہٰذا ہم اس معاہدے سے الگ ہونے کا اعلان تو کر دیں گے، مگر جب تک وہ معاہدہ قائم ہے ان سے دغابازی نہیں کریں گے اور نہ ہی ان سے فوری جنگ کریں گے، اس لیے کہ معاہدہ سے علیحدگی اختیار کرنے سے قبل ان سے جنگ کرنا حرام ہے۔
[اَلْمُتَّقِیْنَ]… متقی وہ لوگ ہیں جنہوں نے رب تعالیٰ کے اوامر کی تعمیل کر کے اور اس کی نواہی سے اجتناب کر کے اس کے عذاب کے سامنے آڑ کھڑی کر دی ہو، تقویٰ کی یہ بڑی خوبصورت اور جامع تعریف ہے۔
چوتھی آیت: ﴿اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ التَّوَّابِیْنَ وَ یُحِبُّ الْمُتَطَہِّرِیْنَ﴾ (البقرۃ: ۲۲۲) ’’یقینا اللہ تعالیٰ محبت کرتا ہے بہت توبہ کرنے والوں سے اور محبت کرتا ہے بہت پاک رہنے والوں سے۔‘‘
توبہ کی شرائط
التواب: توبہ سے مبالغہ کا صیغہ ہے، اللہ کی طرف بہت زیادہ رجوع کرنے والا۔ توبہ: اللہ تعالیٰ کی معصیت کو ترک کر کے اس کی اطاعت گزاری کے ذریعے اس کی طرف رجوع کرنا۔توبہ کی پانچ شرطیں ہیں :
پہلی شرط: اللہ تبارک و تعالیٰ کے لیے مخلص ہونا، بایں طور کہ اللہ کا ڈر اور اس کے ثواب کی امید اسے توبہ کرنے پر آمادہ کر دے۔
دوسری شرط:گزشتہ گناہوں پر ندامت کا اظہار کرنا، اور اس کی علامت یہ ہے کہ وہ آئندہ کے لیے ان کے ارتکاب کی تمنا نہیں کرے۔
تیسری شرط: ارتکاب معاصی سے باز آجانا، اگر گناہ حرام ہے تو اسے ترک کر دینا اور اگر ترک واجب کی صورت میں ہو تو امکانی حد تک اس کا تدارک کرنا۔
چوتھی شرط: آئندہ کے لیے گناہ نہ کرنے کا پختہ ارادہ کرنا۔
پانچویں شرط: قبولیت توبہ کے وقت میں توبہ کرنا، یعنی موت کا وقت آنے سے پہلے اور مغرب کی طرف سے طلوع
|