ہمارے لیے قیامت کے دن پر ایمان لانا ضروری ہے، اس دن وقوع پزیر ہونے والے امور پر ایمان لانا ضروری ہے۔ مگر کیوں ؟ اور کیسے؟ کی بحث کا ہمارے پاس کوئی جو از نہیں ہے۔
میزان کے قیام کا اثبات
٭ قیامت کے دن ہونے والا پانچواں کام، اس کے بارے میں مؤلف رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
((فَتُنْصَبُ الْمَوَازِیْنُ فَتُوْزَنُ بِہَا اَعْمَالُ الْعِبَادِ۔))
’’ترازو نصب کردیئے جائیں گے اور ان کے ساتھ بندوں کے اعمال کا وزن کیا جائے گا۔‘‘
شرح:…ترازو کی تنصیب اللہ تعالیٰ کرے گا، تاکہ ان کے ساتھ بندوں کے اعمال کا وزن کیا جائے۔
مؤلف رحمہ اللہ نے ’’الموازین‘‘ جمع کا صیغہ استعمال کیا ہے۔ نصوص شرعیہ میں جمع کا صیغہ بھی استعمال ہوا ہے اور مفرد کا بھی۔جمع کی مثال یہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وَ نَضَعُ الْمَوَازِیْنَ الْقِسْطَ لِیَوْمِ الْقِیٰمَۃِ﴾ (الانبیاء :۴۷)
’’اور ہم قیامت کے دن انصاف کے ترازو رکھیں گے۔‘‘
اور دوسری جگہ فرمایا گیا ہے:
﴿وَ الْوَزْنُ یَوْمَئِذِ نِ الْحَقُّ فَمَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِیْنُہٗ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الْمُفْلِحُوْنَo وَ مَنْ خَفَّتْ مَوَازِیْنُہٗ فَاُولٰٓئِکَ الَّذِیْنَ خَسِرُوْٓا اَنْفُسَہُمْ﴾ (الاعراف:۹۔۸)
’’اور اس دن اعمال کا وزن ہونا حق ہے پس جس شخص کے وزن بھاری ہوگئے تو یہی لوگ ہیں کامیاب ہونے والے، اور جس شخص کے وزن ہلکے ہوگئے تو یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے نقصان میں ڈالا اپنے آپ کو۔‘‘
اور اس کے افراد کی مثال نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد ہے:
((کلمتان حبیبتان الی الرحمن، خفیفتان علی اللّسان، ثقیلتان فی المیزان، سبحان اللہ وبحمدہ، سبحان اللہ العظیم۔))
’’دو کلمے ایسے ہیں جو رب رحمان کو بڑے پسند ہیں ، زبان پر ہلکے اور میزان میں بھاری ہیں ، اور وہ ہیں : سبحان اللّٰہ و بحمدہ سبحان اللّٰہ العظیم۔‘‘[1]
اس جگہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مفرد کے طور پر ’’فی المیزان‘‘ فرمایا۔
اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ قرآنی آیات اور اس حدیث میں تطبیق کی کیا صورت ہوگی؟
تو اس کا جواب یہ ہے کہ اسے موزون کے اعتبار سے جمع لایا گیا ہے، اس لیے کہ وہ متعد ہے، اور اس اعتبار سے مفرد
|