Maktaba Wahhabi

354 - 552
٭ مؤلف رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ((کَمَا جَمَعَ بَیْنَ ذٰلِکَ فِیْ قَوْلِہِ: ﴿ہُوَ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ فِیْ سِتَّۃِ اَیَّامٍ ثُمَّ اسْتَوٰی عَلٰی الْعَرْشِ یَعْلَمُ مَا یَلِجُ فِی الْاَرْضِ وَمَا یَخْرُجُ مِنْہَا وَمَا یَنْزِلُ مِنَ السَّمَآئِ وَمَا یَعْرُجُ فِیْہَا وَہُوَ مَعَکُمْ اَیْنَ مَا کُنْتُمْ وَاللّٰہُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌo﴾ (الحدید: ۴) ’’وہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں میں پیدا کیا پھر جا ٹھہرا عرش پر وہ جانتا ہے جو کچھ داخل ہوتا ہے زمین میں اور جو کچھ اس سے نکلتا ہے اور جو کچھ اترتا ہے آسمان سے اور جو کچھ چڑھتا ہے اس میں ، اور وہ تمہارے ساتھ ہوتا ہے تم جہاں کہیں بھی ہو۔‘‘ صفت علو اور معیت کے درمیان تطبیق شرح:…[ بَیْنَ ذٰلِکَ ] … یعنی علو اور معیت کے درمیان۔ارشاد باری: ﴿ثُمَّ اسْتَوٰی عَلٰی الْعَرْشِ﴾ علو کی دلیل ہے۔ جبکہ فرمان ربانی: ﴿وَہُوَ مَعَکُمْ اَیْنَ مَا کُنْتُمْ﴾ معیت کی دلیل ہے، اللہ رب تعالیٰ نے علو اور معیت کو ایک آیت میں جمع فرما دیا۔ ان میں کوئی منافات نہیں ، علو، استواء علی العرش اور معیت میں تطبیق کی تین صورتیں ہیں ۔ اولاً: اللہ رب تعالیٰ نے استواء علی العرش کا ذکر کرنے کے بعد فرمایا: ﴿وَہُوَ مَعَکُمْ اَیْنَ مَا کُنْتُمْ﴾ جب خود اللہ تعالیٰ اپنی ذات کے لیے دو وصف اکٹھے کر دے تو ہمیں علم الیقین کی حد تک معلوم ہوتا چاہیے، کہ وہ متناقض نہیں ہیں ، اس لیے کہ اگر وہ متناقض ہوتیں تو ان کا اجتماع محال ہوتا، اس لیے کہ دو متناقض چیزیں نہ تو مجتمع ہو سکتی ہیں اور نہ مرتفع ان میں سے ایک کا وجود اور دوسری کا انتفاء ضروری ہوتا ہے، اگر آیت میں تناقض ہوتا تو اس سے یہ بات لازم آتی کہ اس کا پہلا حصہ اس کے آخری حصے کی یا دوسرا پہلے حصے کی تکذیب کرتا۔ ثانیاً: کبھی کبھی مخلوق میں بھی علو اور معیت اکٹھے ہو سکتے ہیں ، جس طرح کہ مؤلف آگے چل کر لوگوں کے اس قول کا ذکر کریں گے: ہم چلتے رہے اور چاند ہمارے ساتھ رہا۔ ثالثاً: اگر مخلوق کی نسبت سے ان میں تعارض فرض کر بھی لیا جائے، تو یہ خالق کی نسبت سے لازم نہیں آتا۔ اس لیے کہ اللہ کی مثل کوئی چیز نہیں ہے۔ ٭ مؤلف رحمہ اللہ فرماتے ہیں : (( وَلَیْسَ مَعْنِیْ قَوْلِہِ: ﴿وَہُوَ مَعَکُمْ﴾ اَنَّہُ مُخْتَلِطٌ بِالْخَلْقِ۔)) ’’ارشاد باری تعالیٰ: ﴿وَہُوَ مَعَکُمْ﴾ کا یہ معنی ہرگز نہیں ہے کہ اس کا مخلوق کے ساتھ اختلاط ہے۔‘‘ شرح:…اس لیے کہ اس معنی میں نقص ہے، ہم قبل ازیں بتا چکے ہیں کہ اگر اس کا یہ معنی ہوتا تو اس سے یا تو خالق کا تعدد لازم آتا یا اس کا تجزء (منقسم ہونا) علاوہ ازیں اس سے یہ بھی لازم آتا کہ اشیاء اس کے لیے محیط ہیں ، حالانکہ اللہ سبحانہ
Flag Counter