٭ مؤلف رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
((وَلَیْسَ کَـلَامُ اللّٰہِ الْحُرُوْفَ دُوْنَ الْمَعَانِي۔))
’’معانی سے ہٹ کر محض حروف کلام اللہ نہیں ہیں ۔‘‘
شرح:…معتزلہ اور جہمیہ کا مذہب یہ ہے کہ کلام کوئی ایسا معنی نہیں ہے جو اللہ کی ذات کے ساتھ قائم ہو بلکہ وہ اس کی مخلوق ہے، جیسے کہ زمین، آسمان، اونٹنی، گھر اور اس طرح کی دیگر چیزیں ، یہ کوئی ایسا معنی نہیں ہے جو فی نفسہ قائم ہو، کلام اللہ حروف سے عبارت ہے جسے اللہ تعالیٰ نے پیدا فرمایا اور اس کا نام کلام رکھ دیا جس طرح اس نے اونٹنی کو پیدا فرمایا اور اسے اللہ کی اونٹنی کا نام دے دیا۔ گھر پیدا کیا اور اسے اللہ کے گھر سے موسوم کردیا۔
اسی لیے جہمیہ اور معتزلہ کے نزدیک کلام حروف اور اصوات سے عبارت ہے جنھیں اللہ نے پیدا فرمایا اور انھیں ازراہ تشریف وتعظیم اپنی طرف منسوب کردیا۔
کلام اللہ حروف و معانی دونوں کا نام ہے
٭ مؤلف رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
((وَلَا الْمَعَانِیْ دُوْنَ الْحُرُوْفِ۔))
’’اور نہ ہی کلام اللہ حروف سے ہٹ کر معانی کا نام ہے۔‘‘
شرح:…یہ کلابیہ اور اشعریہ کا مذہب ہے، ان کے نزدیک کلام اللہ فی نفسہٖ معنی ہے، پھر اللہ نے اصوات وحروف کو پیدا فرمایا جو عبارتاً یا حکایتاً اس معنی پر دلالت کرتے ہیں ۔
امام ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اگر ہم اللہ تعالیٰ کے متکلم ہونے کا انکار کریں گے تو شریعت اور تقدیر کو باطل قرار دیں گے۔ شریعت کو تو اس لیے کہ تمام رسالتیں وحی کی وساطت سے آئیں ، اور وحی مرسل الیہ تک پہنچایا گیا کلام ہے، کلام کے انکار سے وحی کا انکار لازم آئے گا، اور انتفاء وحی کا نتیجہ انتفاء شرع کی صورت میں سامنے آئے گا۔
جہاں تک تقدیر کا تعلق ہے تو اس کا ابطال اس طرح ہوگا کہ تخلیق اس کے حکم سے ہوتی ہے، وہ کن فرماتا ہے اور چیز معرض وجود میں آجاتی ہے، جس طرح کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿اِِنَّمَا اَمْرُہُ اِِذَا اَرَادَ شَیْئًا اَنْ یَّقُوْلَ لَہٗ کُنْ فَیَکُوْنُ﴾ (یٰس :۸۲)
’’اس کی شان یہ ہے کہ جب وہ کسی چیز کا ارادہ کرتا ہے تو اسے کہتا ہے: ہوجا! اور وہ ہو جاتی ہے۔‘‘
|