لِلرَّحْمٰنِ عَصِیًّاo یٰٓاَبَتِ اِنِّیْٓ اَخَافُ اَنْ یَّمَسَّکَ عَذَابٌ مِّنَ الرَّحْمٰنِ فَتَکُوْنَ لِلشَّیْطٰنِ وَلِیًّا﴾ (مریم:۴۵۔۴۲)
’’میرے ابا جان! تم اس کی عبادت کیوں کرتے ہو جو نہ سنتا ہے اور نہ دیکھتا اور نہ تمہارے کسی کام آتاہے، اباجان! یقینا میرے پاس وہ علم آیا ہے جو تمہارے پاس نہیں آیا، اس لیے میری اتباع کریں ، میں تمہیں سیدھا راستہ دکھادوں گا، اباجان! شیطان کی عبادت نہ کریں ، یقینا شیطان رحمان کا نافرمان ہے ابا جان! یقینا میں اس بات سے ڈرتا ہوں کہ رب رحمان کی طرف سے تمہیں عذاب پہنچے گا۔ پھر تم شیطان کے دوست ہو جاؤ گے۔‘‘
اس پر ان کا باپ کہنے لگا:
﴿اَرَاغِبٌ اَنْتَ عَنْ اٰلِہَتِیْ یٰٓاِبْرٰہِیْمُ لَئِنْ لَّمْ تَنْتَہِ لَاَرْجُمَنَّکَ وَ اہْجُرْنِیْ مَلِیًّاo﴾ (مریم:۴۶)
’’ابراہیم! کیا تو میرے معبودوں سے بے رغبت ہے، اگر تو اس سے باز نہ آیا تو میں تجھے سنگ سار کردوں گا، تو ایک مدت کے لیے مجھ سے دور ہو جا۔‘‘
خلیل الرحمن نے اپنے باپ سے مزید فرمایا:
﴿ أَتَتَّخِذُ أَصْنَامًا آلِهَةً ۖ إِنِّي أَرَاكَ وَقَوْمَكَ فِي ضَلَالٍ مُّبِينٍ ﴾ (الانعام:۷۴)
’’کیا تو بتوں کو معبود بناتا ہے، بلاشک میں تجھ کو اور تیری قوم کو کھلی گمراہی میں دیکھتا ہوں ۔‘‘
امراء نیک وبد کے ساتھ نیک اعمال کی ادائیگی کرنا
٭ مؤلف رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
((ویرون اقامۃ الحج والجہاد والجمع والاعیاد مع الامراء، ابرارًا کانوا اَو فجاراً۔))
’’اہل سنت امراء کے ساتھ وہ نیک ہوں یا بد، حج، جہاد، جمعہ اور عیدوں کی ادائیگی کو درست خیال کرتے ہیں ۔‘‘
شرح:…[ابرارًا] … یہ بَرکی جمع ہے، بہت زیادہ اطاعت گزار اور ’’الفجار‘‘ فاجر کی جمع ہے۔ بہت زیادہ گناہ گار۔ اہل سنت، اہل بدعت کے برعکس امیر کے ساتھ حج کی ادائیگی درست خیال کرتے ہیں ، اگر چہ وہ پرلے درجے کا فاسق ہی کیوں نہ ہو۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ۹ھ میں ابو بکر رضی اللہ عنہ کو امیر الحج بنا کر بھیجا، اس دن سے لے کر آج تک مسلمانوں کا معمول رہا ہے کہ وہ فریضہ حج کی ادائیگی کے لیے ایک امیر الحج مقرر کرتے ہیں ، اور یہی امر مشروع ہے، اس لیے کہ اس دوران انہیں ایسے امیر کی ضرورت ہوتی ہے جس کی اقتدا میں وہ فریضہ حج ادا کر سکیں ۔ بصورت دیگر عازمین حج میں اختلاف پیدا ہو گا اور وہ بدنظمی کا شکار ہو جائیں گے۔
وہ فاسق امراء کے ساتھ بھی فریضہ حج کی ادائیگی کو درست خیال کرتے ہیں ، یہاں تک کہ اگر وہ اس دوران شراب نوشی
|