Maktaba Wahhabi

527 - 552
’’اور بہترین راستہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا راستہ ہے۔‘‘ شرح:…[الہدی] … وہ راستہ جس پر سالک گامزن رہتا ہے۔ راستے بے شمار ہیں مگر بہترین راستہ و طریقہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا ہے۔ ہمیں اس کا علم بھی ہے اور اس پر ہمارا ایمان بھی۔ ہمیں علم ہے کہ عقائد و عبادات اور اخلاق و معاملات میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا راستہ بہترین راستہ ہے، اور یہ کہ اس میں کسی طرح کا کوئی نقص نہیں ہے، نہ اس کے حسن و کمال میں ، نہ تمام و انتظام میں ، نہ مخلوق کے مصالح کے ساتھ موافقت میں ، اور نہ ہی ان حوادث کے احکام میں جو اس وقت ہو رہے ہیں اور قیامت تک ہوتے رہیں گے۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ تمام طریقوں سے کامل و مکمل ہے، وہ تورات، انجیل، زبور کی شریعت، ابراہیم علیہ السلام کے صحیفوں کی شریعت اور تمام راستوں سے بہترین ہے۔ اگر ہمارا اس پر اعتقاد ہے تو واللہ اس کے علاوہ ہمیں کچھ نہیں چاہیے۔ اس عقیدہ کی بناء پر ہمیں فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا کسی بھی شخص کے قول کے ساتھ معارضہ کرنے کی جسات نہیں کرنی چاہیے وہ کوئی بھی ہو۔ حتی کہ اگر خیر الامۃ سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ کا قول ایک طرف ہو اور دوسری طرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا قول ہو، تو ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول پر عمل کریں گے۔ اہل سنت کا یہ اعتقاد کتاب و سنت پر مبنی ہے۔کتاب اللہ میں ارشاد ہوتا ہے: ﴿وَ مَنْ اَصْدَقُ مِنَ اللّٰہِ حَدِیْثًاo﴾ (النساء:۸۷)’’اور اللہ سے بڑھ کر کسی کی بات سچی ہو سکتی ہے۔‘‘ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے منبر پر لوگوں کو خطبہ دیتے ہوئے ارشاد فرمایا: ’’خیر الحدیث کتاب اللہ و خیر الہدی ہدی محمد صلی اللہ علیہ وسلم ‘‘[1]’’بہترین بات کتاب اللہ ہے، اور بہترین راستہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا راستہ ہے۔‘‘ اللہ اور اس کے رسول کا کلام دوسرے کلاموں پر مقدم ہے ٭ مؤلف رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ((ویو ثرون کلام اللہ علی کلام غیرہ من کلام أصناف الناس۔)) ’’اور وہ کلام اللہ کو مختلف قسم کے لوگوں کے کلام پر ترجیح دیتے ہیں ۔‘‘ شرح:…[ویو ثرون ] … یعنی مقدم رکھتے ہیں ۔ [کلام اللّٰہ علی کلام غیرہ] … یعنی خبر و حکم میں تمام قسم کے لوگوں کے کلام پر کلام اللہ کو مقدم رکھتے ہیں ان کے نزدیک اللہ کی اخبار ہر شخص کی خبر پر مقدم ہیں ۔ اگر گزشتہ امتوں کی طرف سے ہمارے پاس کوئی ایسی خبر آئے جس کی قرآن تکذیب کرتا ہو تو اس کی ہم بھی تکذیب کریں گے۔ مثلاً: اکثر مورخین میں یہ بات مشہور ہے کہ حضرت ادریس حضرت نوح سے قبل ہو گزرے تھے۔ مگر یہ بات غلط ہے،
Flag Counter