اس لیے کہ قرآن اسے غلط بتاتا ہے۔ جیسا کہ ارشاد ہوتا ہے:
﴿اِنَّآ اَوْحَیْنَآ اِلَیْکَ کَمَآ اَوْحَیْنَآ اِلٰی نُوْحٍ وَّ النَّبِیّٖنَ مِنْ بَعْدِہٖ﴾ (النساء:۱۶۳)
’’یقینا ہم نے آپ کی طرف وحی کی ہے جس طرح ہم نے وحی کی تھی نوح اور ان کے بعد دوسرے نبیوں کی طرف ۔‘‘
جبکہ ادریس علیہ السلام کا شمار نبیوں میں ہوتا ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿وَ اذْکُرْ فِی الْکِتٰبِ اِدْرِیْسَ اِنَّہٗ کَانَ صِدِّیْقًا نَّبِیًّا﴾ (مریم:۵۶)
’’اور ذکر کریں کتاب(قرآن) میں ادریس کا، یقینا وہ بہت سچے نبی تھے۔‘‘
اور آگے چل کر فرمایا:
﴿اُولٰٓئِکَ الَّذِیْنَ اَنْعَمَ اللّٰہُ عَلَیْہِمْ مِّنَ النَّبِیّٖنَ مِنْ ذُرِّیَّۃِ اٰدَمَ وَ مِمَّنْ حَمَلْنَا مَعَ نُوْحٍ﴾ (مریم:۵۸)
’’یہی وہ لوگ ہیں جن پر اللہ نے انعام کیا نبیوں میں سے، اولاد آدم میں سے اور ان میں سے جن کو ہم نے نوح کے ساتھ سوار کیا۔‘‘
مزید فرمایا گیا:
﴿وَلَقَدْ اَرْسَلْنَا نُوحًا وَّاِِبْرٰہِیْمَ وَجَعَلْنَا فِیْ ذُرِّیَّتِہِمَا النُّبُوَّۃَ وَالْکِتٰبَ﴾ (الحدید:۲۶)
’’اور یقینا ہم نے بھیجا تھا نوح اور ابراہیم کو، اور ہم نے ان کی اولاد میں نبوت اور کتاب کا سلسلہ جاری رکھا۔‘‘
نوح علیہ السلام سے پہلے صرف آدم علیہ السلام ہی نبی تھے۔
٭ مؤلف رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
((ویقدمون ہدی محمد صلی اللہ علیہ وسلم علی ہدی کل أحد۔))
’’اور وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقہ کو ہر ایک کے طریقہ پر مقدم رکھتے ہیں ۔‘‘
شرح:…[ویقدمون ہدی محمد صلی اللہ علیہ وسلم ] … یعنی وہ آپ کے طریقہ اور سنت کو مقدم رکھتے ہیں ۔
[علی ہدی کل أحد۔] … یعنی عقائد و عبادات، اخلاق و معاملات، جملہ احوال اور ہر چیز میں ۔ اس لیے کہ اللہ فرماتا ہے:
﴿وَ اَنَّ ہٰذَا صِرَاطِیْ مُسْتَقِیْمًا فَاتَّبِعُوْہُ وَ لَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِکُمْ عَنْ سَبِیْلِہٖ﴾(الانعام:۱۵۳)
’’اور یقینا میرا یہ راستہ سیدھا ہے، پس تم اس کی اتباع کرو، اور مختلف راستوں کی اتباع نہ کرو، وہ تمہیں اس کے صحیح راستے سے الگ کر دیں گے۔‘‘
اور دوسری جگہ فرمایا:
﴿قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّٰہُ وَیَغْفِرْلَکُمْ ذُنُوْبَکُمْ وَاللّٰہُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ﴾ (آل عمران:۳۱)
|