رابعاً: وہ کام جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جبلت کے تقاضے کے تحت کیا، تو اس کا شمار قطعی طور پر عبادات میں نہیں ہوتا، مگر کبھی یہ کام من وجہ عبادت ہو بھی سکتا ہے، اور وہ اس طرح کہ اسے مخصوص انداز میں سرانجام دینا عبادت قرار پائے۔
مثلاً نیند، ایک جبلی تقاضا ہے، مگر دائیں طرف سونا مسنون ہے، اکل و شرب جبلت و طبیعت ہے۔ لیکن یہ عمل ایک اعتبار سے عبادت بھی ہوسکتا ہے۔ اور وہ اس طرح کہ انسان کھانا کھاتے اور پانی پیتے وقت اللہ تعالیٰ کے حکم کی تعمیل کا ارادہ کرے، بدن کی حفاظت اور عبادت گزاری کے لیے قوت کے حصول کو پیش نظر رکھے۔ پھر اسے معین انداز میں سر انجام دینا بھی عبادت ہو سکتا ہے۔ مثلاً دائیں ہاتھ سے کھانا۔ شروع میں بسم اللہ اور فراغت پر الحمد للہ پڑھنا۔
سوال: بال رکھنا عادت ہے یا عبادت؟
جواب: بعض علماء کے نزدیک بال رکھنا عبادت اور مسنون عمل ہے۔ جبکہ بعض کے نزدیک اس کا شمار امور عادیہ میں ہوتا ہے۔ ان کی دلیل یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کو دیکھا جس نے اپنے سرکا کچھ حصہ منڈا رکھا اور کچھ چھوڑ دیا تھا، تو آپ نے اسے اس سے منع کرتے ہوئے فرمایا: ’’سارا سر منڈاؤ یا سارا چھوڑ دو۔‘‘[1] یہ اس بات کی دلیل ہے کہ بال رکھنا عبادت نہیں ہے اگر ایسا ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے سر کے سارے بال باقی رکھنے کا حکم دیتے۔
اسی مسئلہ میں جلد بازی سے کام لینا ناروا ہے، بدون دلیل کسی چیز پر عبادت کا حکم نہیں لگانا چاہیے اس لیے کہ عبادت میں اصل منع ہے، بجز اس عمل کے جس کی مشرو عیت کی کوئی دلیل موجود ہو۔
سابقین الاوّلین مہاجرین وانصار کے راستے کی پیروی
٭ مؤلف رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
((واتباع سبیل السابقین الاولین من المہاجرین والانصار۔))
’’اور مہاجرین و انصار میں سے پہلے پہلے سبقت لے جانے والوں کی راہ کی پیروی کرنا۔‘‘
شرح:…یعنی اہل سنت کا یہ بھی طریقہ ہے کہ وہ مہاجرین و انصار میں سے ان لوگوں کی اتباع کرتے ہیں جو اس امت کے اولین اور سبقت لے جانے والے ہیں ۔
[السابقین] … یعنی اعمال صالحہ کی طرف سبقت لے جانے والے ۔
[الاولین ] … یعنی اس امت سے۔
[المہاجرون] … مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کرنے والے۔
[الانصار۔] … نبی کریم کے عہد مبارک میں اہل مدینہ۔
|