والا ہے اس کا ہر حکم حکمت کے موافق ہوا کرتا ہے، مگر ہم اس کی بعض حکمتوں کو جانتے ہیں جبکہ بعض کو نہیں جانتے۔
﴿وَمَآ اُوْتِیْتُمْ مِّنَ الْعِلْمِ اِلَّا قَلِیْلًاo﴾ (الاسراء: ۸۵) ’’تمہیں بہت کم علم دیا گیا ہے۔‘‘
حکمت کی اقسام
پھر حکمت کی دو قسمیں ہیں :
پہلی قسم:کسی چیز کے اس کی کیفیت اور اس کی موجودہ حالت پر ہونے کی حکمت، مثلاً نماز، جو کہ بہت بڑی عبادت ہے، اس کی ادائیگی سے قبل حدث اصغر اور حدث اکبر سے طہارت حاصل کی جاتی ہے، اسے قیام، قعود رکوع اور سجود جیسی معیات معینہ پر ادا کیا جاتا ہے۔ اسی طرح زکوٰۃ ہے، یہ بھی اللہ تعالیٰ کی عبادت ہے جو کہ عام طور پر نمو پانے والے مال کا کچھ حصہ ضرورت مندوں کو دے کر ادا کی جاتی ہے یا ان لوگوں کو دی جاتی ہے جن کی مسلمانوں کو ضرورت ہوتی ہے جیسا کہ بعض مؤلفۃ القلوب۔
دوسری قسم:حکم کی غرض وغایت: اللہ تعالیٰ کے تمام احکام کے لائق ستائش مقاصد اور جلیل القدر ثمرات ہوا کرتے ہیں ۔
آپ حکم کونی میں اللہ تعالیٰ کی حکمت کا مشاہدہ کریں کہ لوگوں کو بڑے بڑے مصائب میں مبتلا کرنے کے بھی قابل ستائش مقاصد ہوا کرتے ہیں ، ارشاد ہوتا ہے:
﴿ظَہَرَ الْفَسَادُ فِی الْبَرِّ وَ الْبَحْرِ بِمَا کَسَبَتْ اَیْدِی النَّاسِ لِیُذِیْقَہُمْ بَعْضَ الَّذِیْ عَمِلُوْا لَعَلَّہُمْ یَرْجِعُوْنَo﴾ (الروم: ۴۱)
’’لوگوں کے ہاتھوں کی کمائی کی وجہ سے خشکی اور تری میں فساد پھیل گیا تاکہ وہ انہیں ان کے بعض اعمال کا مزہ چکھائے شاید کہ وہ واپس لوٹ آئیں ۔‘‘
اس میں ان لوگوں کی تردید ہے جو یہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے احکام کسی حکمت پر مبنی نہیں ہوتے بلکہ وہ محض اس کی مشیت کا مظہر ہوتے ہیں ۔
اس آیت میں اللہ عزوجل کے ناموں میں سے العلیم اور الحکیم کا ذکر ہے اور اس کی صفات میں سے علم وحکمت کا۔
یہ آیت اس بات کا فائدہ دیتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے علم اور اس کی حکمت پر ایمان رکھنے سے اس کے کونی اور شرعی احکام پر طمانینت تامہ حاصل ہوتی ہے۔ دل کی بے قراری ختم ہوتی ہے اور شرح صدر حاصل ہو جاتا ہے۔ اس لیے کہ ان کا صدور علم وحکمت سے ہوتا ہے۔
اللہ تعالیٰ کی صفاتِ کمال علیم و خبیر
٭ مؤلف رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
(( وقولہ: ﴿الْعَلِیْمُ الْخَبِیْرُ﴾ (التحریم: ۳) … )) ’’علم والا، باخبر۔‘‘
|