صفت عفو، مغفرت، رحمت، عزت اور قدرت
٭ مؤلف نے ان صفات کے اثبات کے ضمن میں چار قرآنی آیات ذکر کی ہیں :
پہلی آیت: ﴿اِنْ تُبْدُوْا خَیْرًا اَوْ تُخْفُوْہُ اَوْ تَعْفُوْا عَنْ سُوْٓئٍ فَاِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَفُوًّا قَدِیْرًاo﴾ (النساء: ۱۴۹) ’’اگر تم بھلائی ظاہر کرو یا اسے چھپاؤ یا برائی سے درگزر کرو، تو یقینا اللہ بہت معاف کرنے والا، بہت قدرت والا ہے۔‘‘
شرح:…یعنی اگر تم لوگوں کے سامنے نیکی کرو یا اسے ان سے چھپا کر کرو، وہ اللہ کے علم میں ہے اور اس پر کچھ بھی مخفی نہیں ہے۔ دوسری جگہ ارشاد ہوتا ہے:
﴿اِنْ تُبْدُوْا شَیْئًا اَوْ تُخْفُوْہُ فَاِنَّ اللّٰہَ کَانَ بِکُلِّ شَیْئٍ عَلِیْمًاo﴾ (الاحزاب: ۵۴)
’’تم کسی چیز کو ظاہر کر و یا اس کو مخفی رکھو، یقینا اللہ تعالیٰ کو ہر چیز کا بخوبی علم ہے۔‘‘
مگر یہ سمجھنے کے لیے غور و فکر سے کام لینا ضروری ہے۔
[اَوْ تَعْفُوْا عَنْ سُوْٓئٍ]… عفو کا معنی ہے سزا سے درگزر کرنا۔ اگر کسی شخص نے آپ کے ساتھ بدسلوکی کی اور آپ نے درگزر سے کام لیا۔ تو آپ کا یہ طرز عمل اللہ تعالیٰ کے علم میں ہے، لیکن در گزر سے کام لینے والے کی تعریف اس امر سے مشروط ہے کہ اس کا یہ عمل اصلاح احوال کے ساتھ مربوط ہو۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:﴿فَمَنْ عَفَا وَاَصْلَحَ فَاَجْرُہُ عَلَی اللّٰہِ﴾ (الشوریٰ: ۴۰)’’پس جو شخص در گزر سے کام لے اور اصلاح کرے تو اس کا اجر اللہ کے ذمہ ہے۔‘‘
یہ اس لیے کہ کبھی عفو و درگزر سرکشی اور زیاتی میں اضافہ کا سبب بن جاتا ہے اور کبھی اس سے باز آجانے کا، اور کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ اس سے زیادتی کرنے والے کے رویے میں کوئی کمی بیشی واقع نہیں ہوتی۔
۱۔ اگر درگزر سے کام لینا سرکشی میں اضافہ کا سبب بنتا ہو تو اس موقع پر وہ قابل مذمت ٹھہرے گا اور کبھی اس سے روکا بھی جا سکے گا۔ مثلاً ہم ایک مجرم کو معاف کر رہے ہیں اور ہمیں معلوم ہے یا ظن غالب یہ ہے کہ اگر ہم نے اسے معاف کیا تو وہ اس سے بھی بڑے جرم کا ارتکاب کرے گا، تو اس موقعہ پر درگزر سے کام لینے والی کی ستائش نہیں بلکہ اس کی مذمت کی جائے گی۔
۲۔ کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ عفو و درگزر سے کام لینا جرم وزیادتی سے رک جانے کا سبب بن جاتا ہے، بایں طور کہ مجرم شرمسار ہوتا ہے اور اس بات کا عہد کرتا ہے کہ جس شخص نے میرے بارے میں عفو و گزر سے کام لیا ہے میں نہ صرف یہ کہ دوبارہ اس پر زیادتی نہیں کروں گا، بلکہ کسی دوسرے پر بھی نہیں کروں گا، تو اس جگہ عفو ودرگزر سے کام لینا قابل ستائش بھی ہوگا اور مطلوب بھی اور کبھی واجب بھی۔
۳۔ کبھی عفو ودرگزر سے کام لینا غیر موثر ثابت ہوتا ہے اور اس سے زیادتی کرنے والے کے رویے میں کوئی کمی بیشی واقع نہیں ہوتی۔ ایسے میں عفو ودرگزر سے کام لینا بہتر ہوتا ہے۔ اس لیے کہ قرآن کہتا ہے:
|