جب لفظ آل لفظ اتباع کے ساتھ مل کر آئے اور یوں کہا جائے: آلہ واتباعہ۔ تو اس صورت میں آل سے مراد رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے گھرانے کے اہل ایمان لوگ ہوں گے۔ چونکہ شیخ الاسلام رحمہ اللہ نے اس جگہ اتباع کا ذکر نہیں کیا اور صرف ’’آلہ وصحبہ‘‘ کہنے پر اکتفا کیا، لہٰذا ہم کہہ سکتے ہیں کہ (اٰلہ) سے مراد آپ کے پیروکار ہیں اور ’’صحبہ‘‘ سے مراد وہ تمام لوگ ہیں جنہیں ایمان کی حالت میں آپ کی رفاقت میسر آئی اور ایمان کی حالت میں ہی دنیا سے کوچ کر گئے۔ اس جگہ آل پر صحب کا عطف، عطف الخاص علی العام کے باب سے ہے، اس لیے کہ صحبت مطلق اتباع سے خاص ہے۔
[وَسَلَّمَ تَسْلِیْمًا مَزِیْدًا۔]… (سَلَّم) میں آفات وبلیات سے سلامتی اور الصلاۃ میں بھلائیوں کے حصول کا معنی ہے۔ اس طرح مولف نے یہ صیغہ لا کر ایک طرف تو اللہ تعالیٰ سے یہ سوال کیا کہ وہ اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا دامن خیر وبھلائی سے بھر دے اور خاص طور پر ملا اعلیٰ میں آپ کی تعریف و ثناء کے ساتھ اور دوسری طرف یہ سوال کہ وہ آپ اور آپ کے پیروکاروں سے جملہ آفات کو دور رکھے۔
’’صَلَّی‘‘ اور ’’سلَّم‘‘ میں جملہ لفظا خبر یہ ہے اور معنی ’’طلبیہ‘‘ اس لیے کہ اس سے مراد دعا ہے۔
مَزِیْدًازائد یا زیادہ کے معنی میں ہے، یعنی صلاۃ پر سلام کا اضافہ۔ اس طرح یہ صلاۃ کے بعد سلام کی دوسری دعا ہے۔اہل علم کے نزدیک رسول وہ ہوتا ہے جس کی طرف شریعت وحی کی جائے اور اسے اس کی تبلیغ کا حکم دیا جائے۔
آپ علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے نبی بھی تھے اور رسول بھی۔ آپ ان آیات کی روشنی میں نبی اللہ تھے۔ فرمایا:
﴿اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَقَo خَلَقَ الْاِِنسَانَ مِنْ عَلَقٍo اقْرَاْ وَرَبُّکَ الْاَکْرَمُo الَّذِیْ عَلَّمَ بِالْقَلَمِo عَلَّمَ الْاِِنسَانَ مَا لَمْ یَعْلَمْo﴾ (العلق: ۱۔۵)
’’پڑھیں اپنے رب کا نام لے کر جس نے پیدا کیا، اس نے پیدا کیا انسان کو جمے ہوئے خون سے، پڑھیں اور تمہارا رب بڑا کریم ہے، جس نے سکھایا قلم کے ذریعے، اس نے انسان کو وہ باتیں سکھائیں جنہیں وہ نہیں جانتا تھا۔‘‘
اور ان آیات کی روشنی میں رسول اللہ: ﴿یاََیُّہَا الْمُدَّثِّرُ o قُمْ فَاَنذِرْo﴾[1] (المدثر: ۱۔ ۲) ’’اے کپڑا اوڑھنے والے! اٹھیں اور (لوگوں کو) ڈرائیں ۔‘‘
کلمہ اَمَّا بَعْدُ کا اعراب
٭ مؤلف رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
((اَمَّا بَعْدُ ؛ فَہٰذَا اعْتِقَادُ الْفِرْقَۃِ النَّاجِیَۃِ الْمَنْصُوْرَۃِ إِلٰی قِیَامِ السَّاعَۃِ ؛ اَہْلِ السُّنَّۃِ وَالْجَمَاعَۃِ۔))
’’یہ فرقہ ناجیہ، اہل السنہ والجماعہ کا عقیدہ ہے جس کی قیامت تک مدد کی جاتی رہے گی۔‘‘
|