Maktaba Wahhabi

210 - 552
یہ تو حرم مکی کے اندر کی حالت تھی، بیرون حرم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ان کا سلوک اس سے بھی شرم ناک ہوتا وہ گندی اور بد بو دار چیزیں اٹھا کر لاتے اور آپ کے گھر کے دروازے پر ان کا ڈھیر لگا دیتے۔ آپ طائف تشریف لے گئے تو بستی کے آوارہ اور بدمعاش لوگ راستے کے دونوں طرف کھڑے ہو کر آپ پر پتھر برسانے لگے، انہوں نے پتھر مار مار کر آپ کو لہولہان کر دیا یہاں تک کہ آپ کی ایڑیاں خون سے رنگین ہو گئیں ، آخر کار کہ آپ نے قرن الثعالب میں پہنچ کر دم لیا۔[1] آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کے حکم پر صبر کیا، مگر یہ صبر ایسے بندہ مومن کا تھا جسے اس بات کا مکمل یقین تھا کہ اس کا انجام میرے حق میں ہوگا۔ اس لیے کہ اللہ ان سے فرما چکا تھا: ﴿وَاصْبِرْ لِحُکْمِ رَبِّکَ فَاِِنَّکَ بِاَعْیُنِنَا﴾ یہ بڑے اعزاز کی بات ہے کہ آپ کسی سے یہ کہیں کہ آپ میرے دل میں بستے ہیں ، آپ ہمیشہ میری آنکھوں کے سامنے ہوتے ہیں ۔ پھر جس سے رب تعالیٰ یہ فرمائے کہ آپ میری آنکھوں کے سامنے ہیں تو یہ بڑے نصیب کی بات ہے۔ آپ میری آنکھوں کے سامنے ہیں ، کا معنی یہ ہے کہ میں آپ کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہوں ۔ عربوں میں یہ تعبیر بڑی معروف ہے جس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ میرے نزدیک آپ بڑی اہمیت کے حامل ہیں ، میں ہر طرح سے آپ کا خیال رکھوں گا اور آپ کی پوری پوری حفاظت کروں گا آپ میرے پاس آخری حد تک محفوظ و مامون ہیں ۔ اس آیت کریمہ میں اللہ رب العزت کے لیے آنکھ کا اثبات کیا گیا ہے لیکن اس کا ورود صیغہ جمع کے ساتھ ہوا ہے جس کی وجہ ہم عنقریب بیان کریں گے۔ ان شاء اللہ آنکھ کا شمار صفات ذاتیہ خبریہ میں ہوتا ہے، ذاتیہ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ اس کے ساتھ ہمیشہ سے متصف ہے اور ہمیشہ تک متصف رہے گا اور خبریہ اس لیے کہ ہماری نسبت سے اس کا مسمیٰ اجزا اور ابعاض ہیں ۔ ہماری آنکھ چہرے کا بعض حصہ ہے اور چہرہ جسم کا بعض حصہ۔ لیکن اللہ تعالیٰ کی نسبت سے ہمارے لیے یہ کہنا جائز نہیں ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کا بعض ہے، اور یہ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کے لیے یہ لفظ وارد نہیں ہوا، نیز اس لیے بھی کہ یہ خالق میں تجزئہ کا متقاضی ہے، بعض اجزاء کے فقدان سے کل کی بقاء بھی جائز ہوتی ہے اور اس کا فقدان بھی۔ جبکہ اللہ تعالیٰ کی صفات باقی رہنے والی ہیں ، ان کا فقدان کبھی بھی ممکن نہیں ۔ اللہ تعالیٰ کی دو آنکھیں ہونے پر حدیث نبوی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک صحیح حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی صرف دو آنکھیں ہیں ، آپ علیہ الصلاۃ والسلام نے دجال کا تعارف کرواتے ہوئے فرمایا کہ: ’’وہ کانا ہے جبکہ تمہارا رب کانا نہیں ہے۔‘‘[2] دوسری حدیث کے الفاظ ہیں : ’’وہ دائیں آنکھ سے کانا ہے۔‘ ‘[3]
Flag Counter