’’کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ جس اللہ نے انہیں پیدا کیا ہے وہ ان سے قوت میں بڑھ کر ہے۔‘‘
[الْمَتِیْنُ] …حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں : [1] ’’متین بمعنی شدید ہے، یعنی قوت وعزت میں شدید، تمام صفات جبروت میں شدید، یہ معنی کے اعتبار سے قوی کی تاکید ہے۔
ہم اللہ تعالیٰ کے بارے میں یہ تو بتا سکتے ہیں کہ وہ شدید ہے مگر ہم اسے اس نام سے موسوم نہیں کر سکتے، بلکہ اسے متین کے نام سے موسوم کریں گے اس لیے کہ اس نے خود اس کے ساتھ اپنی ذات کو موسوم کیا ہے۔
اس آیت میں اللہ تعالیٰ کے دو ناموں الرزاق اور المتین، اور تین صفات کا ذکر کیا گیا ہے اور وہ ہیں : رزق، قوت اور جس صفت پر اسم ’’متین‘‘ مشتمل ہے۔
اللہ تعالیٰ کی صفت قوت اور رزق کا فائدہ یہ ہے کہ ہم صرف اللہ تعالیٰ سے ہی قوت اور رزق کا سوال کریں اور اس بات پر یقین رکھیں کہ کوئی قوت جتنی بھی بڑی ہو وہ اللہ تعالیٰ کی قوت کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔
آیت لَیْسَ کَمِثْلِہِ شَیْئٌ اور اِنَّ اللّٰہَ نِعِمَّا پر بحث
٭ مؤلف رحمہ اللہ فرماتے ہیں (ارشاد باری تعالیٰ ہے) :
﴿لَیْسَ کَمِثْلِہٖ شَیْئٌ وَہُوَ السَّمِیْعُ البَصِیْرُ﴾ (الشوریٰ: ۱۱)
’’اس کی مثل کوئی چیز نہیں ہے اور وہ سننے والا دیکھنے والا ہے۔‘‘
﴿اِنَّ اللّٰہَ نِعِمَّا یَعِظُکُمْ بِہٖ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ سَمِیْعًا بَصِیْرًا﴾ (النساء: ۵۸)
’’بے شک اللہ تعالیٰ تمہیں اس کے ساتھ اچھی نصیحت کرتا ہے، بیشک اللہ سننے والا دیکھنے والا ہے۔‘‘
شرح:…مؤلف پہلی آیت کو اللہ تعالیٰ کے دو ناموں کے اثبات اور اس صفت کے اثبات کے لیے لائے ہیں جس پر یہ دونوں نام مشتمل ہیں ، اور وہ دو نام ہیں : السَّمِیْع اور الْبَصِیْر اور اس میں معطلہ کی تردید ہے۔
[لَیْسَ کَمِثْلِہٖ شَیْئٌ] … یہ نفی ہے اور صفات سلبیہ میں سے ہے، اور اس سے مقصود کمال باری تعالیٰ کا اثبات ہے۔ یعنی اس کے کمال کی وجہ سے اس کی مخلوقات میں سے کوئی بھی چیز اس کے مماثل نہیں ہے، اس قرآنی جملہ میں اہل تمثیل کا ردّ ہے۔
اللہ تعالیٰ کے لیے سمع و بصر کا ثبوت
[وَہُوَالسَّمِیْعُ البَصِیْرُ] … (السَّمِیْع) کے دو معنی ہیں ، مجیب اور آواز سننے والا، سمیع بمعنی مجیب کی مثال کے طور پر اس ارشاد باری تعالیٰ کو پیش کیا جاتا ہے:
﴿اِنَّ رَبِّیْ لَسَمِیْعُ الدُّعَآئِ﴾ (ابراہیم: ۳۹) یعنی ’’میرا رب دعا قبول کرنے والا ہے۔‘‘
جہاں تک سمیع بمعنی ادراک الصوت کا تعلق ہے تو اس کی کئی قسمیں ہیں :
|