Maktaba Wahhabi

304 - 552
فصل: سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم شرح:… لغوی اعتبار سے سنت طریقہ کو کہتے ہیں ، اسی سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد ہے: ((لَتَرْکَبُنَّ سُنَنَ مَنْ کَانَ قَبْلَکُمْ)) [1] یعنی تم گزشتہ لوگوں کے طریقوں کی اتباع کرو گے۔ جبکہ سنت اصطلاحی اعتبار سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قول وفعل اور تقریر کو کہا جاتا ہے، جو کہ واجب اور مستحب پر مشتمل ہے۔ سنت تشریع اسلامی کا دوسرا مصدر ہے، سنت کا مصدر ثانی ہونا عدد کے اعتبار سے ہے نہ کہ ترتیب کے اعتبار سے، اس لیے کہ صحیح طور پر ثابت ہونے کی صورت میں اس کا مرتبہ قرآن مجید کے برابر ہے۔ قرآن مجید میں غور و فکر کرنے والے کو صرف ایک ہی چیز کی ضرورت ہوتی ہے اور وہ ہے حکم پر اس کی دلالت کا صحیح ہونا، جبکہ سنت میں غور وفکر کرنے والے کو دو چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ الاول:نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف اس کا صحیح طور پر منسوب ہونا۔ الثانی : اس کی دلالت کا حکم پر صحیح ہونا، اس بنا پر سنت سے استدلال کرنے والے کو قرآن سے استدلال کرنے والے کے مقابلے میں زیادہ محنت درکار ہوتی ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمیں قرآن کی سند سے بے نیاز کر دیا گیا ہے، قرآن کی سند متواتر ہے اور اس میں شک وشبہ کی کوئی گنجائش نہیں ہے، بخلاف اس چیز کے جس کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کیا گیا ہو۔ جب سنت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے صحیح طور پر ثابت ہو جائے تو خبر کی تصدیق اور حکم پر عمل کے اعتبار سے اس کا مرتبہ قرآن مجید کے برابر ہوتا ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَاَ نْزَلَ اللّٰہُ عَلَیْکَ الْکِتٰبَ وَ الْحِکْمَۃَ﴾ (النساء: ۱۱۳)’’اللہ تعالیٰ نے آپ پر کتاب وحکمت نازل فرمائی۔‘‘ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’میں تم میں سے کسی کو اس طرح شاہانہ تخت پر بیٹھا ہوا نہ پاؤں کہ اس کے پاس میرا کوئی حکم آئے اور وہ کہنے لگے: ہم نہیں جانتے، ہم تو جو کچھ کتاب اللہ میں پائیں گے اس کا اتباع کریں گے، خبردار! مجھے کتاب دی گئی ہے اور اس کی مثل اس کے ساتھ ہے۔‘‘[2] اسی لیے صحیح قول یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے صحیح طور پر ثابت سنت سے قرآن مجید کو منسوخ کیا جا سکتا ہے، اگرچہ یہ عقلاً اور شرعاً دونوں طرح درست ہے، مگر اس کی کوئی مثال موجود نہیں ہے۔[3]
Flag Counter