Maktaba Wahhabi

505 - 552
٭ اس کی مؤلف رحمہ اللہ یوں وضاحت فرماتے ہیں : ((وہم مع ذلک لا یعتقدون ان کل واحد من الصحابۃ معصوم عن کبائر الا ثم وصغائرہ۔)) ’’اس کے باوجود اہل سنت کا یہ اعتقاد نہیں ہے کہ صحابہ کرام میں سے ہر ایک کبیرہ اور صغیرہ گناہوں سے معصوم تھا۔‘‘ اور یہ اس لیے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’آدم کا ہر بیٹا گناہ گار ہے اور بہترین گناہ گار توبہ کرنے والا ہے۔‘‘[1] لیکن ان کا کسی کبیرہ یا صغیرہ گناہ پر اجماع کرتے ہوئے اسے جائز قرار دینا یا اس کا ارتکاب کرنا ممکن نہیں ہے۔البتہ ان میں سے کوئی ایک کسی کبیرہ گناہ کا ارتکاب کر سکتا ہے، جس طرح کہ مسطح بن اثاثہ، حسان بن ثابت اور حمنہ بنت جحش سے واقعہ اِفک کے بارے میں ہوا۔[2] لیکن چونکہ ان پر شرعی حد کا نفاذ کر دیا گیاتھا لہٰذا وہ اس گناہ سے پاک ہو گئے تھے۔ اہل سنت کا صحابہ رضی اللہ عنہم کی مغفرت کو واجب سمجھنا ٭ مؤلف رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ((بل یجوز علیہم الذنوب فی الجملۃ، وانہم من السوابق والفضائل مایوجب مغفرۃً ما یصدر منہم ان صدر۔)) ’’فی الجملہ صحابہ کرام سے گناہوں کا صدور ممکن ہے، مگر وہ سبقت الی الاسلام اور کچھ ایسے دیگر فضائل کے حامل ہیں کہ اگر ان سے کسی گناہ کا صدور ہو بھی جائے تو وہ ان کی مغفرت کو واجب قرار دے دیتے ہیں ۔‘‘ شرح:…یعنی گناہوں کے ارتکاب کے حوالے سے وہ دیگر لوگوں جیسے ہیں ۔ مگر انہیں کچھ امور کی وجہ سے امتیاز حاصل ہے جن کی بناء پر اللہ تعالیٰ ان کے کبیرہ یا صغیرہ گناہوں کی مغفرت فرما دیتا ہے، انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نصرت و معاونت کی اپنی جانوں اور مالوں کے ساتھ جہاد کیا۔ اور اعلاء کلمۃ اللّٰہ کے لیے اپنی گردنیں کٹوادیں ، اور یہ ایسی امتیازی خوبیاں ہیں جو ان سے صادر ہونے والے گناہوں کی مغفرت کو واجب قرار دیتی ہیں ، وہ گناہ جتنا بھی بڑا ہو۔ بشرطیکہ وہ کفر تک نہ پہنچے۔ حضرت حاطب بن ابی بلتعہ رضی اللہ عنہ کا قصہ اسی قبیل سے ہے۔ جب انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قریش مکہ کی طرف روانگی سے مطلع کرنے کے لیے ان کی طرف پیغام بھیجا، جس سے اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی علیہ الصلاۃ والسلام کو مطلع فرمادیا۔ اور وہ پیغام
Flag Counter