نقص وغیر عن و جہہ الصحیح۔))
’’وہ کہتے ہیں کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے مساوی کے بارے میں مروی آثار میں سے بعض تو سراسر جھوٹ ہیں ، بعض میں کمی بیشی کر دی گئی جبکہ کئی ایک کو ان کے صحیح رخ سے ہٹا دیا گیا ۔‘‘
شرح:…مؤلف رحمہ اللہ نے اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں مروی آثار کو تین قسموں میں تقسیم کیا ہے:
۱: ایسے آثار جو کذب محض ہیں اور ان کی سرے سے کوئی حقیقت نہیں ہے۔ اس قسم کے آثار اہل بیت کے بارے میں ناصبیوں کی روایات میں بکثرت پائے جاتے ہیں ۔
۲: ان میں سے کچھ آثار کی کوئی نہ کوئی اصل ہوتی ہے، مگر ان میں کمی بیشی کر دی گئی یا انہیں ان کے صحیح رخ سے ہٹا دیا گیا۔
ان دونوں قسم کے آثار کو رد کر دینا واجب ہے۔
۳: تیسری قسم صحیح آثار پر مشتمل ہے۔ اس کے بارے میں ہمارا کیا موقف ہے؟
٭ اس کی مؤلف یوں وضاحت فرماتے ہیں :
((والصحیح منہ ہم فیہ معذورون: إما مجتہدون مصیبون، واما مجتہدون مخطؤن۔))
’’رہے ان میں سے آثار صحیحہ، تو وہ اس بات میں معذور ہیں ۔ انہوں نے اجتہاد کیا، اب یا تو وہ صحیح نتیجہ پر پہنچے یا پھر ان سے غلطی ہوگئی۔‘‘
شرح:…مجتہد شخص اگرصحیح نتیجے پر پہنچے تو اسے دوہرے اجر سے نوازا جاتا ہے اور اگر اس سے غلطی ہو جائے تو وہ ایک اجر کا مستحق ہوتا ہے۔ اس کی دلیل نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا مذکورہ بالا ارشاد ہے۔[1]
امیر معاویہ اور حضرت علی رضی اللہ عنہما کے درمیان جو کچھ ہوا وہ اجتہاد اور تاویل کی بنیاد پر ہوا، مگر یہ حقیقت ہے کہ اس میں علی رضی اللہ عنہ معاویہ رضی اللہ عنہ سے اقرب الی الصواب تھے، بلکہ ہم ان کے صائب ہونے کا قطعی فیصلہ بھی دے سکتے ہیں ، مگر یہ بات یاد رہے کہ معاویہ رضی اللہ عنہ مجتہد تھے۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ کے اقرب الی الصواب ہونے کی دلیل نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا حضرت عمار رضی اللہ عنہ کے بارے میں یہ ارشاد ہے: ’’ہائے افسوس! عمار کو باغی گروہ قتل کر ڈالے گا‘‘[2] اور حضرت عمار رضی اللہ عنہ کو معاویہ رضی اللہ عنہ کے ساتھیوں نے قتل کیا تھا جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کی جماعت خلیفہ وقت کے خلاف خروج کرنے والی باغی جماعت تھی، مگر وہ لوگ تاویل کرنے والے تھے، حق علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھا، قطعی طور پر یا پھر ظنی طور پر۔
علاوہ ازیں ایک چوتھی قسم بھی ہے، اور وہ یہ کہ ان سے کچھ ایسی چیزوں کا بھی صدور ہوا، جن کی بنیاد نہ تو اجتہاد تھا اور نہ ہی تاویل۔
|