فصل:
تقدیر پر ایمان کے درجات کے بارے میں
٭ مؤلف رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
((وَالْاِیْمُانُ بِالْقَدَرِ عَلَی دَرَجَتَیْنِ ، کُلُّ دَرَجَۃٍ تَتَضَمَّنُ شَیْئَیْنِ۔))
’’تقدیر پر ایمان لانے کے دو درجے ہیں ، اور ہر درجہ دو چیزوں کو متضمن ہے۔‘‘
شرح: …مؤلف رحمہ اللہ کو یہ تقسیم اختلاف کی وجہ سے کرنی پڑی ہے، اس لیے کہ تقدیر میں اختلاف اس کے تمام مراتب کو شامل نہیں ہے۔ انسان کے لیے تقدیر کا باب علم اور دین کے مشکل ترین ابواب میں سے ایک ہے۔ اور اس میں نزاع عہد صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے چلا آ رہا ہے۔ لیکن متلاشی حق کے لیے یہ مشکل نہیں ہے۔
اللہ تعالیٰ اپنے علم قدیم سے موصوف ہے
٭ مؤلف رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
((فالدرجۃ الاولیٰ الایمان باَن اللّٰہ علم ما الخلق عاملون بعلمہ القدیم الذی موصوف بہ ازلاً وابدا۔))
’’تقدیر پر ایمان کے درجات میں سے پہلا درجہ؛ اس بات پر ایمان رکھنا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے علم قدیم سے جس کے ساتھ وہ ازل ابد سے موصوف ہے، جانتا ہے کہ مخلوق آئندہ چل کر کیا عمل کرنے والی ہے۔‘‘
شرح: …[فالدرجۃ الاولیٰ الایمان باَن اللّٰہ علم ما الخلق عاملون] … مؤلف رحمہ اللہ نے اس بات کا ذکر نہیں کیا کہ اللہ کو اس کا علم ہے جو مخلوق کر رہی ہے؛ اس لیے کہ یہ مسئلہ اختلافی نہیں ہے۔ انہوں نے اس مسئلہ کا ذکر کیا ہے جس میں علماء کا اختلاف ہے۔ اور وہ یہ کہ کیا اللہ تعالیٰ اس چیز کو جانتا ہے جو اس کے مخلوق آئندہ کے لیے کرنے والی ہے یا اس کے کرنے کے بعد ہی اسے اس کا علم ہوتا ہے؟ علماء سلف اور ائمہ کا مذہب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کو اس کا پہلے سے علم ہے۔
[بعلمہ القدیم]… علماء کی اصطلاح میں القدیم وہ ہے جس کی ابتدا کا اوّل نہ ہو۔ یعنی اللہ تبارک وتعالیٰ ان گزشتہ زمانوں سے جن کی کوئی نہایت نہیں ہے۔ ان باتوں کو جانتا ہے جو مخلوق کرنے والی ہے۔ القدیم کا یہ مفہوم لغت میں اس کے مفہوم سے مختلف ہے۔ جس کی رو سے اس سے نسبتاً قدیم بھی مراد لیا جا سکتا ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد میں ہے:
﴿حَتّٰی عَادَ کَالْعُرْجُوْنِ الْقَدِیمِo﴾ (یس:۳۹)’’یہاں تک کہ وہ کھجور کی قدیم شاخ کی طرح ہو جاتاہے۔‘‘
یہ سبھی کے علم میں ہے کہ کھجور کی شاخ ازلی قدیم نہیں ہے، بلکہ وہ اپنے مابعد کے اعتبار سے قدیم ہے۔
|