’’پھر متوجہ ہوا آسمان کی طرف اور وہ دھواں ہی دھواں تھا اور فرمایا اس سے اور زمین سے کہ تم دونوں خوشی خوشی آؤ یا ناخوشی سے۔ انہوں نے کہا: ہم آتے ہیں خوشی خوشی، پھر مکمل کیا انہیں سات آسمان دو دنوں میں ۔‘‘
﴿ثُمَّ اسْتَوٰی عَلَی الْعَرْشِ﴾ (ثم) ترتیب کے لیے ہے۔
[اسْتَوٰی]… علا کے معنی میں ہے: ’’وہ بلند ہوا۔‘‘
عرش کے لغوی معنی
[الْعَرْشِ]… عرش سے مراد مخلوقات کا احاطہ کرنے والی چھت ہے، ہم عرش کے مادہ کے بارے میں کچھ نہیں جانتے، اس لیے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی ایسی صحیح حدیث مروی نہیں ہے جس سے ہمیں اس بارے میں کوئی ہی حاصل ہو سکتی ہو۔ البتہ ہم یہ ضرور جانتے ہیں کہ عرش الٰہی رب تعالیٰ کی کل مخلوقات سے بڑا ہے۔
اصل کے اعتبار سے عربی زبان میں عرش سے مراد بادشاہ کا تخت ہوتا ہے، اور یہ سبھی کے علم میں ہے کہ تخت شاہی اس قدر عظیم الشان ہوتا ہے کہ اس کی اور کہیں نظیر نہیں ملتی۔
اہل سنت کا ایمان ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ عرش پر مستوی ہے اور یہ استواء اس کے شایان شان ہے اور یہ مخلوق کے استواء کے مماثل ہرگز نہیں ہے۔
الاستواء کی تفسیر سلف کے نزدیک
اہل سنت کے نزدیک استواء کا معنی علو اور استقرار ہے۔
علمائے سلف سے استواء کی تفسیر میں چار معانی وارد ہیں : علا، ارتفع، صعد اور استقر، بلند ہونا، قرار پکڑنا پہلے تینوں کلمات ایک ہی معنی میں ہیں جبکہ استقر کا معنی ان سے مختلف ہے۔ یعنی قرار پکڑنا۔
اہل سنت کی دلیل یہ ہے کہ اگر استوی (علی) کے ساتھ متعدی ہو تو وہ جملہ استعمالات میں اسی معنی میں آتا ہے۔ مثلاً ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿فَاِِذَا اسْتَوَیْتَ اَنْتَ وَمَنْ مَّعَکَ عَلَی الْفُلْکِ﴾ (المومنون: ۲۸)
’’پھر جب بیٹھ جائے تو اور وہ جو تیرے ساتھ ہیں کشتی پر۔‘‘
دوسری جگہ فرمایا گیا:
﴿وَجَعَلَ لَکُمْ مِّنَ الْفُلْکِ وَالْاَنْعَامِ مَا تَرْکَبُوْنَo لِتَسْتَوُوْا عَلٰی ظُہُوْرِہِ ثُمَّ تَذْکُرُوْا نِعْمَۃَ رَبِّکُمْ اِِذَا اسْتَوَیْتُمْ عَلَیْہِ﴾ (الزخرف: ۱۲۔ ۱۳)
’’اور بنائی ہیں تمہارے لیے کشتیاں اور چوپائے جن پر تم سوار ہوتے ہو تاکہ تم برابر ہو کر بیٹھو ان کی پشتوں پر، پھر جب تم ان پر ٹھیک ہو کر بیٹھ جاؤ تو اپنے رب کا احسان یاد کرو۔‘‘
|