[وَلَا یَؤدُہٗ حِفْظُہُمَا]… یعنی آسمانوں اور زمین کی نگہداشت اسے تھکاتی نہیں ۔
یہ صفت، صفات منفیہ میں سے ہے، یہ نفی جن صفات ثبوتیہ پر دلالت کرتی ہے وہ ہیں : کمال قدرت وقوت اور کمال علم ورحمت۔
[وَہُوَ الْعَلِیُّ الْعَظِیْمُ] … (العلی) فعیل کے وزن پر صفت ہے اس لیے کہ اس کا علو لازم لذاتہ ہے۔ صفت مشبّہ اور اسم فاعل میں فرق یہ ہے کہ اسم فاعل امر حادث ہے جس کا زوال ممکن ہوتا ہے جبکہ صفت مشبہ اور موصوف لازم و ملزوم ہوا کرتے ہیں ، موصوف اس سے الگ نہیں ہو سکتا۔
علوم کی اقسام
علو باری تعالیٰ کی دو قسمیں ہیں : علو ذات اور علو صفات۔ اول الذکر کا مطلب یہ ہے کہ اس کی ذات ہر چیز سے اوپر ہے اس سے اوپر کوئی چیز نہیں ۔ جبکہ ثانی الذکر پر یہ ارشاد گرامی دلالت کرتا ہے:
﴿وَ لِلّٰہِ الْمَثَلُ الْاَعْلٰی﴾ (النحل: ۶۰)
یعنی اس کی تمام صفات عالی و برتر ہیں ، اور ان میں کسی بھی اعتبار سے کوئی نقص نہیں ہے۔
﴿اَلْعَظِیْمُ﴾ یہ بھی صفت مشبہ کا صیغہ ہے، یعنی عظمت والا، جو کہ قوت و کبریائی اور ان جیسے ان معانی سے عبارت ہے جو اس کلمہ کے مدلول سے معروف ہیں ۔
آیت الکرسی اللہ تعالیٰ کے پانچ ناموں اور چھبیس صفات پر مشتمل ہے
یہ آیت ان پانچ اسمائے باری تعالیٰ (( اَللّٰہُ، اَلْحَیُّ، الْقَیُّوْمُ، الْعَلِیُّ، الَعَظِیْمُ)) اور اس کی چھبیس صفات پر مشتمل ہے، ان میں سے پانچ صفات کو تو یہ اسماء متضمن ہیں ، جبکہ باقی کی تفصیل اس طرح سے ہے:
چھٹی صفت: اس کا الوہیت کے ساتھ منفرد ہونا۔
ساتویں صفت: کمال حیات اور کمال قبولیت کی وجہ سے اس کے حق میں نیند اور اونگھ کا منتفی ہونا۔
آٹھویں صفت: عموم ملکیت، ﴿لَہٗ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ﴾
نویں صفت: اس کا ملک کے ساتھ منفرد ہونا۔ جو کہ تقدیم خبر سے مأخوذ ہے۔
دسویں صفت: بادشاہت کی قوت وکمالیت ﴿مَنْ ذَا الَّذِیْ یَشْفَعُ عِنْدَہٗٓ اِلَّا بِاِذْنِہٖ﴾
گیارہویں صفت: اثبات عندیت۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اللہ کی ذات ہر جگہ موجود نہیں ہے، جس سے حلولیت کی تردید ہوتی ہے۔
بارہویں صفت: اثبات اذن۔ ﴿اِلَّا بِاِذْنِہٖ﴾
تیرہویں صفت: عموم علم۔ ﴿یَعْلَمُ مَا بَیْنَ اَیْدِیْہِمْ وَ مَا خَلْفَہُمْ﴾
چودھویں ، پندرہویں صفت: وہ نہ تو ماضی کو بھولتا ہے اور نہ مستقبل سے ناآگاہ ہے۔ ﴿یَعْلَمُ مَا بَیْنَ اَیْدِیْہِمْ وَ مَا خَلْفَہُمْ﴾
|