کرے اور اپنے اندر قوت برداشت پیدا کرے، لوگوں کے ساتھ خندہ روئی، کھلے دل اور اطمینان قلبی سے ملے، یہ سب چیزیں مکارم اخلاق میں شمار ہوتی ہیں ۔
محاسن اعمال کی دعوت دینا
رہے ’’محاسن الاعمال‘‘ تو ان کا تعلق جوارح کے ساتھ ہوتا ہے، جو کہ اعمال تعبدیہ کو بھی شامل ہیں اور غیر تعبدیہ کو بھی۔ مثلاً بیع وشراء اور اجارہ، اہل سنت لوگوں کو جملہ اعمال میں سچائی اور خیر خواہی اختیار کرنے اور کذب وخیانت سے اجتناب کرنے کی دعوت دیتے ہیں ، وہ ان امور کی طرف صرف دوسروں کو ہی دعوت نہیں دیتے بلکہ خود بھی ان پر عمل پیرا رہتے ہیں ۔
حسن اخلاق کا مالک کامل ایمان والا ہے
٭ مؤلف رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
((ویعتقدون معنی قولہ: اکمل المومنین ایمانا احسنہم اخلاقا۔))[1]
’’اور وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کے مفہوم پر اعتقاد رکھتے ہیں : اہل ایمان میں سے سب سے کامل ایمان اس شخص کا ہے جس کا اخلاق ان سب سے اچھا ہے۔‘‘
شرح:…نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث ہمیشہ بندہ مومن کے پیش نظر رہنی چاہیے۔ اہل ایمان میں سے سب سے کامل ایمان اس شخص کا ہے جس کا اخلاق ان سب سے اچھا ہو۔ اللہ تعالیٰ کے ساتھ بھی اور اس کے بندوں کے ساتھ بھی۔
اللہ تعالیٰ کے ساتھ حسن خلق کے مظاہر یہ ہیں کہ اس کے جمیع أوامر کو تسلیم کیا جائے، ان کے سامنے سر تسلیم خم کر دیا جائے اور انہیں کھلے دل سے قبول کیا جائے۔
جہاں تک مخلوق کے ساتھ خوش اخلاقی کا تعلق ہے، تو کہا گیا ہے کہ اس سے مراد ہے: جو دو کرم کی عادت اپنانا، ایذا رسائی سے باز رہنا اور خندہ پیشانی سے پیش آنا۔
جو دو کرم صرف مال کے ساتھ خاص نہیں ہے، بلکہ اس کا تعلق مال و جاہ اور نفس کے ساتھ بھی ہے۔
اس طرح بندہ مومن اپنے قول وفعل کے ساتھ بھی کسی کو اذیت نہیں پہنچاتا۔
٭ مؤلف رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
((ویندبون الی ان تصل من قطعک و تعطی من حرمک، وتعفو عمن ظلمک۔))
’’وہ اس بات کی بھی دعوت دیتے ہیں کہ آپ قطع تعلقی کرنے والے کے ساتھ صلہ رحمی کریں ، محروم کرنے والے
|