’’اور کتنے ہی فرشتے آسمانوں میں ہیں کہ ان کی سفارش کچھ بھی کام نہیں آئے گی مگر اس کے بعد کہ اللہ جس کے لیے اجازت دے اور پسند کرے۔‘‘
دوسری جگہ ارشاد ہوتا ہے:
﴿یَوْمَئِذٍ لَّا تَنْفَعُ الشَّفَاعَۃُ اِلَّا مَنْ اَذِنَ لَہُ الرَّحْمٰنُ وَ رَضِیَ لَہٗ قَوْلًاo﴾ (طہ:۱۰۹)
’’اور اس دن سفارش نفع نہ دے گی مگر جسے رب رحمان اجازت دے اور اس کی بات کو پسند کرے۔‘‘
اور سورۃ الانبیاء میں فرمایا گیا:
﴿وَ لَا یَشْفَعُوْنَ اِلَّا لِمَنِ ارْتَضٰی﴾ (الانبیاء:۲۸)
’’اور وہ نہیں سفارش کر سکتے مگر صرف اسی کی جس کے لیے اللہ پسند کرے۔‘‘
پہلی آیت ان تینوں شروط کو متضمن ہے، دوسری دو کو اور تیسری ایک شرط کو متضمن ہے۔
قیامت کے دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تین شفاعتیں فرمائیں گے۔
۱۔ شفاعت عظمیٰ : جو تمام اولاد آدم کے لیے ہوگی۔
۲۔ جنتی لوگوں کے لیے شفاعت، تاکہ وہ جنت میں داخل ہو جائیں ۔
۳۔ جہنم کے مستحقین کے لیے اس بات کی شفاعت، کہ وہ جہنم میں داخل نہ ہوں ، اور جو اس میں داخل ہو چکے ہیں انہیں اس سے نکال لیا جائے۔
پہلی شفاعت
٭ پھر مؤلف رحمہ اللہ ان کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
((أماالشفاعۃ الاولیٰ؛ فیشفع فی اہل الموقف، حتی یقضی بینہم بعد ان یتراجع الانبیاء، آدم و نوح و ابراہیم و موسیٰ و عیسیٰ ابن مریم عن الشفاعۃ حتی تنتحصی إلیہ۔))
’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم پہلی شفاعت اہل موقف کے بارے میں فرمائیں گے تاکہ ان کا فیصلہ کر دیا جائے، اور یہ شفاعت اس وقت ہوگی جب آدم، نوح، ابراہیم، موسی اور عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام شفاعت کرنے سے انکار کردیں گے اور پھر اس کا معاملہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس تک آن پہنچے گا۔‘‘
شرح:…[حتی یقصّی بیہنم]… (حتّٰی) غائت کے لیے نہیں بلکہ تعلیل کے لیے ہے، اس لیے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ شفاعت لوگوں کا فیصلہ کیے جانے سے قبل ہوگی۔ پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم شفاعت فرمائیں گے تو اللہ عزوجل لوگوں کا فیصلہ کرنے کے لیے نزول فرمائے گا اور پھر فیصلہ صادر کر دیا جائے گا۔ اس کی نظیر یہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿ہُمُ الَّذِیْنَ یَقُوْلُوْنَ لَا تُنْفِقُوْا عَلٰی مَنْ عِنْدَ رَسُوْلِ اللّٰہِ حَتّٰی یَنْفَضُّوْا﴾ (المنافقون:۷)
|