Maktaba Wahhabi

420 - 552
’’وہ وہی ہیں جو کہتے ہیں کہ تم ان لوگوں پر خرچ نہ کرو جو رسول اللہ کے پاس ہیں تاکہ وہ خود ہی غائب ہو جائیں ۔‘‘ اس جگہ (حتی) تعلیل کے لیے ہے نہ کہ غایت کے لیے۔ یعنی اس لیے کہ وہ غائب ہو جائیں ۔ کیونکہ غایت صورت میں معنی بگڑ جاتا ہے۔ [بعد ان یترا جع الانبیاء: آدم و نوح و ابراہیم و موسی و عیسی ابن مریم عن الشفاعۃ]… یعنی تمام انبیاء کرام لوگوں کے مطالبہ کو رد کر دیں گے۔ اس جملہ کی شرح صحیح بخاری اور مسلم میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی اس حدیث میں وارد ہے جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’میں قیامت کے دن لوگوں کا سردار ہوں گا، کیا تم جانتے ہو کہ یہ کس طرح ہوگا؟ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اگلے پچھلے سب لوگوں کو ایک میدان میں جمع کر دے گا، وہ میدان ایسا ہموار ہوگا کہ بلانے والا انہیں اپنی آواز سنا سکے گا اور دیکھنے والا دیکھ سکے گا، سورج ان کے قریب آجائے گا، اور لوگ ناقابل برداشت حد تک غم و اندوہ اور تکلیف میں مبتلا ہو جائیں گے۔ آخر وہ ایک دوسرے سے کہیں گے: تم پر بڑا کٹھن وقت آگیا ہے۔ کسی ایسے آدمی کی تلاش کرو جو تمہارے پروردگار کے پاس تمہاری شفاعت کرے، وہ ایک دوسرے سے کہیں گے: چلو حضرت آدم کے پاس چلتے ہیں ۔ وہ ان کے پاس جائیں گے اور عرض کریں گے: آپ سب لوگوں کے باپ ہیں ، اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنے دست مبارک سے بنایا، آپ میں اپنی روح پھونکی، اور اس کے حکم سے فرشتوں نے آپ کو سجدہ کیا، آپ دیکھ رہے ہیں کہ ہم کس اذیت سے دو چار ہیں ، ہمارے لیے اپنے پروردگار کے حضور شفاعت کریں ۔ وہ جواب دیں گے: میرا رب آج اس قدر غصے میں ہے کہ وہ نہ تو اس سے پہلے اس قدر غصے میں آیا اور نہ پھر کبھی آئے گا، اس نے مجھے ایک درخت کے قریب جانے سے منع کیا تھا، مگر مجھ سے غلطی ہوگئی۔ مجھے تو اپنی فکر پڑی ہے۔ تم نوح کے پاس جاؤ۔ ان کے مشورہ پر وہ سب حضرت نوح علیہ السلام کے پاس جائیں گے اور ان سے کہیں گے: آپ پہلے رسول ہیں جنہیں زمین والوں کے پاس بھیجا گیا، اللہ تعالیٰ نے آپ کو شکر گزار بندہ فرمایا ہے آپ اپنے رب سے ہماری سفارش کریں ۔ وہ بھی اللہ تعالیٰ کے قہر و غضب کے بارے میں وہی کچھ فرمائیں گے جو کچھ حضرت آدم علیہ السلام نے فرمایا، اللہ تعالیٰ نے مجھے ایک دعاء کرنے کا حق دیا تھا جو میں نے اپنی قوم کے خلاف کر ڈالی، تم ایسا کرو کہ ابراہیم کے پاس جاؤ، اس پر وہ لوگ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوں گے اور ان سے عرض پرداز ہوں گے: آپ اللہ تعالیٰ کے نبی اور اس کے خلیل ہیں ، آپ دیکھ رہے ہیں کہ ہم کیسے ناگفتہ بہ حالات سے دو چارہیں ، اپنے رب سے ہماری سفارش کریں ۔ اس پر وہ بھی اللہ تعالیٰ کے غضب کے بارے میں حضرت آدم والی بات دہرا دیں گے اور کہیں گے کہ میں نے تین جھوٹ بولے تھے۔ تم لوگ موسیٰ کے پاس جاؤ، وہ لوگ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پاس جائیں گے، اور کہیں گے: آپ اللہ کے رسول ہیں ، اللہ تعالیٰ نے اپنی رسالت اور کلام کے ساتھ لوگوں پر آپ کو فضیلت عطا فرمائی، اپنے رب سے ہماری سفارش کریں ، آپ ہمارے حالات کی سنگینی سے بخوبی آگاہ ہیں ۔ وہ بھی اللہ تعالیٰ کے قہر و غضب کے بارے میں
Flag Counter