اسے علم نہیں ہوتا۔
۱۔ وہ بدون علم ظاہر کی نفی کرتا ہے۔
۲۔ بدون دلیل اس کے خلاف کا اثبات کرتا ہے۔
اللہ تعالیٰ کا عرش پر مستوی ہونا
٭ مؤلف رحمہ اللہ نے اللہ تعالیٰ کے اپنے عرش پر مستوی ہونے کا اثبات کرتے ہوئے بتایا ہے کہ قرآن مجید میں اس کا سات مقامات میں ذکر آیا ہے:
پہلا مقام: ﴿اِنَّ رَبَّکُمُ اللّٰہُ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ فِیْ سِتَّۃِ اَیَّامٍ ثُمَّ اسْتَوٰی عَلَی الْعَرْشِ﴾ (الاعراف: ۵۴) ’’بیشک تمہارا رب وہ اللہ ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں میں پیدا فرمایا۔ پھر مستوی ہوا عرش پر۔‘‘
شرح:…[اللّٰہُ]… (اِنَّ) کی خبر ہے۔
[خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ]… یعنی وہ آسمانوں اور زمین کو بڑی مضبوطی کے ساتھ عدم سے وجود میں لایا۔
[فِیْ سِتَّۃِ اَ یَّامٍ]… ان دنوں کی مدت ہمارے دنوں جتنی تھی، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کا ذکر نکرہ کے طور پر کیا ہے۔ لہٰذا انہیں معروف معنٰی پر ہی محمول کیا جائے گا۔
ان ایام کا آغاز اتوار کے دن سے اور اختتام جمعہ کے دن پر ہوا۔
ان میں سے چار دن زمین کے لیے صرف ہوئے اور دو دن آسمان کے لیے۔ اس کی تفصیل اللہ تعالیٰ نے اس طرح بیان فرمائی ہے:
﴿قُلْ اَئِنَّکُمْ لَتَکْفُرُوْنَ بِالَّذِیْ خَلَقَ الْاَرْضَ فِیْ یَوْمَیْنِ وَتَجْعَلُوْنَ لَہٗ اَندَادًا ذٰلِکَ رَبُّ الْعٰلَمِیْنَo وَجَعَلَ فِیْہَا رَوَاسِیَ مِنْ فَوْقِہَا وَبَارَکَ فِیْہَا وَقَدَّرَ فِیْہَا اَقْوَاتَہَا فِیْ اَرْبَعَۃِ اَیَّامٍ سَوَائً لِّلسَّائِلِیْنَo﴾ (فصلت: ۹۔ ۱۰)
’’پوچھیں کہ کیا تم اس ذات کا انکار کرتے ہو جس نے زمین کو دو دن میں پیدا کیا اور تم بتوں کو اس کے شریک بناتے ہو، یہ رب ہے تمام جہانوں کا، اور اسی نے اس میں اس کے اوپر سے پہاڑ بنائے اور اس میں برکت رکھ دی اور مقدر کیا اس میں اس کا سامان معیشت چار دنوں میں جو یکساں ہے سب سوال کرنے والوں کے لیے۔‘‘
اس جگہ چار دنوں کی وضاحت موجود ہے۔ آگے چل کر فرمایا:
﴿ثُمَّ اسْتَوَی اِِلَی السَّمَآئِ وَہِیَ دُخَانٌ فَقَالَ لَہَا وَلِلْاَرْضِ اِئْتِیَا طَوْعًافَقَالَ لَہَا وَلِلْاَرْضِ اِئْتِیَا طَوْعًا اَوْ کَرْہًا قَالَتَا اَتَیْنَا طَائِعِیْنَo فَقَضَاہُنَّ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ فِیْ یَوْمَیْنِ﴾ (فصلت: ۱۱۔۱۲)
|