[ وَ الْاِثْمَ وَ الْبَغْیَ بَغَیْرِ الْحَقِّ] … یعنی اللہ نے گناہ اور بدون حق زیادتی کو بھی حرام کیا ہے۔
[اَلْبَغْیِ]… لوگوں پر زیادتی کرنا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿اِِنَّمَا السَّبِیْلُ عَلَی الَّذِیْنَ یَظْلِمُوْنَ النَّاسَ وَیَبْغُوْنَ فِی الْاَرْضِ بِغَیْرِ الْحَقِّ﴾ (الشوریٰ: ۴۲) ’’الزام صرف ان لوگوں پر ہے جو لوگوں پر ظلم کرتے ہیں اور ملک میں بغیر حق کے زیادتی کرتے ہیں ۔‘‘
[الْبَغْیَ بِغَیْرِ الْحَقّ]… میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ہر زیادتی بدون حق ہوتی ہے، اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ زیادتی کی دو قسمیں ہیں : حق کے ساتھ زیادتی اور بدون حق زیادتی۔
اس بناء پر یہ وصف، وصف کا شف کے باب سے ہے، جسے علماء صفت کاشفہ کے نام سے موسوم کرتے ہیں ، جو کہ اپنے موصوف کے لیے تعلیل کا حکم رکھتی ہے۔
[وَاَنْ تُشْرِکُوْا بِاللّٰہِ مَا لَمْ یُنَزِّلْ بِہٖ سُلْطٰنًا]… یہ جملہ گزشتہ جملہ پر معطوف ہے، یعنی میرے رب نے اس بات کو بھی حرام کیا ہے کہ تم اللہ کے ساتھ شرک کرو جس کی اللہ نے کوئی دلیل نہیں اتاری۔
سلطان، حجت کے معنیٰ میں ہے، حجت کو سلطان سے موسوم کرنے کی وجہ یہ ہے کہ اس سے معاشرہ قوت حاصل کرتا ہے۔﴿بَغَیْرِ الْحَقِّ﴾ یہ قید بھی کاشف ہے، اس لیے کہ کسی بھی مشرک کے پاس شرک کی کوئی دلیل نہیں ہوتی۔
[وَّ اَنْ تَقُوْلُوْا عَلَی اللّٰہِ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ]… یعنی اس نے تم پر یہ بھی حرام کیا ہے کہ تم اللہ کے بارے میں وہ بات کرو جس کا تمہیں علم نہیں ۔ وہ بات اس کی ذات کے بارے میں ہو، اسماء وصفات کے بارے میں ہو یا اس کے افعال واحکام کے بارے میں ۔
یہ پانچ چیزیں ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے ہم پر حرام قرار دیا ہے۔
اس میں ان مشرکین کی تردید ہے، جنہوں نے ان چیزوں کو حرام قرار دے دیا جنہیں اللہ نے حرام نہیں فرمایا تھا۔
سوال : اس آیت میں صفت سلبیہ کہاں ہے؟
جواب : اس ارشاد ربانی میں : ﴿وَ اَنْ تُشْرِکُوْا بِاللّٰہِ مَا لَمْ یُنَزِّلْ بِہٖ سُلْطٰنًا وَّ اَنْ تَقُوْلُوْا عَلَی اللّٰہِ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ﴾ یہ دونوں صفات سلبیہ کے قبیل سے ہیں ۔ ﴿وَ اَنْ تُشْرِکُوْا﴾ یعنی اللہ کے کمال کی وجہ سے کسی کو اللہ کا شریک نہ بناؤ۔﴿ وَّ اَنْ تَقُوْلُوْا عَلَی اللّٰہِ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ﴾ اسی طرح اس کے کمال کی وجہ سے اس کے بارے میں لا علمی پر مبنی بات مت کرو۔ اس آیت سے تربیتی سلوکی فائدہ یہ حاصل ہوتا ہے کہ ہم ان پانچ امور سے اجتناب کریں جن کے حرام ہونے کی اللہ نے صراحت فرمائی ہے۔
اہل علم فرماتے ہیں : ان پانچ امور کے حرام ہونے پر جملہ شرائع کا اجماع ہے۔
اللہ تعالیٰ کے بارے میں لا علمی پر مبنی بات کرنے میں اسماء وصفات پر مشتمل کتاب وسنت کی نصوص میں تحریف کرنا بھی داخل ہے۔ اس لیے کہ نصوص صفات میں تحریف کرنے والا دو طرح سے اللہ تعالیٰ کے بارے میں ایسی بات کرتا ہے جس کا
|