Maktaba Wahhabi

247 - 552
یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ ان کے لیے علم کا اثبات باب ربوبیت کے ساتھ خاص ہے، جبکہ اس کی نفی باب الوہیت کے ساتھ خاص ہے، اس حیثیت سے کہ انہوں نے اس میں اللہ کے شریک بنائے اور اس طرح جاہل کے مقام پر اتر آئے۔ یہ آیت کمال کے حوالے سے کمال صفات باری تعالیٰ کو متضمن ہے اور وہ یوں کہ وہ بے مثل وبے مثال ہے۔ اس آیت سے جو مسلکی فائدہ حاصل ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ ہمیں کامل طور پر رب تعالیٰ کی تعظیم و توقیر کرنی چاہیے، اس لیے کہ جب ہمیں یہ معلوم ہوگا کہ اس کا کوئی مثیل نہیں تو ہم ازراہ خوف ورجاء اس کے ساتھ تعلقات استوار کریں گے اور اس کی تعظیم بجا لائیں گے اور ہمیں علم ہو جائے گا کہ کسی بھی سلطان، بادشاہ، رئیس یا وزیر کا اس سے مماثل ہوناممکن نہیں ہے۔ ان کی بادشاہت، ریاست یا وزارت کی عظمت جیسی بھی کیوں نہ ہو، اس لیے کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا کوئی بھی مثیل نہیں ہے۔ بارہویں آیت: ﴿قُلْ اِنَّمَا حَرَّمَ رَبِّیَ الْفَوَاحِشَ مَا ظَہَرَ مِنْہَا وَ مَا بَطَنَ وَ الْاِثْمَ وَ الْبَغْیَ بَغَیْرِ الْحَقَّ وَ اَنْ تُشْرِکُوْا بِاللّٰہِ مَا لَمْ یُنَزِّلْ بِہٖ سُلْطٰنًا وَّاَنْ تَقُوْلُوْا عَلَی اللّٰہِ مَا لَا تَعْلَمُوْنَo﴾ (الاعراف: ۳۳) ’’فرما دیجئے! میرے رب نے صرف فواحش کو حرام کیا، ظاہر کو بھی اور باطن کو بھی اور گناہ کو اور ناحق زیادتی کو اور یہ کہ تم اللہ کے ساتھ شرک کرو جس کی اس نے کوئی دلیل نہیں اتاری، اور یہ کہ کہو تم اللہ کے بارے میں جو کچھ تم نہیں جانتے ہو۔‘‘ شرح:…[قُلْ]… خطاب نبی کریم علیہ الصلاۃ والسلام سے ہو رہا ہے، یعنی لوگوں کے سامنے اعلان فرما دیجئے۔ ِنَّمَا]… حصر کے لیے ہے۔ [حَرَّمَ]… بمعنی: منع، اس مادہ کا اصل (ح، ر، م) منع کرنے پر دلالت کرتا ہے، اسی سے حریم البشر ہے یعنی کنویں کو ناجائز تصرف سے محفوظ رکھنے والی زمین۔ [الْفَوَاحِشَ]… فاحشۃ کی جمع ہے، بے حیائی والے کام، مثلاً زنا اور لواطت وغیرہ۔ زنا کے بارے میں ارشاد ربانی ہے: ﴿وَلَا تَقْرَبُوا الزِّنٰی اِنَّہٗ کَانَ فَاحِشَۃً﴾ (الاسراء: ۳۲)’’زنا کے قریب بھی مت جاؤ بے شک یہ بے حیائی کا کام ہے۔‘‘اور قومِ لوط کے متعلق فرمایا کہ لوط علیہ السلام نے اپنی قوم سے کہا: ﴿اَتَاْتُوْنَ الْفَاحِشَۃَ﴾ (الاعراف:۸۰)اور زنا کی ایک مشکل یہ بھی ہے کہ انسان اس عورت سے شادی کر لے جو اس کے لیے جائز نہیں جیسے رضاع، مصاہرت وغیرہ ۔ فرمانِ الٰہی ہے:﴿وَ لَا تَنْکِحُوْا مَا نَکَحَ اٰبَآؤُکُمْ مِّنَ النِّسَآئِ اِلَّا مَا قَدْ سَلَفَ اِنَّہٗ کَانَ فَاحِشَۃً وَّ مَقْتًا وَ سَآئَ سَبِیْلًا o﴾ (النساء: ۲۲) ’’اور ان عورتوں سے نکاح نہ کرو جن سے تمہارے باپ نکاح کر چکے ہوں مگر جو کچھ پہلے ہو چکا، بے شک وہ بے حیائی اور ناراضی کا کام ہے اور بہت برا طریقہ ہے‘‘ بلکہ یہ کام تو زنا سے بھی زیادہ سنگین ہے اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کی تین برائیاں گنوائی ہیں جبکہ زنا کی دو۔ [مَا ظَہَرَ مِنْہَا وَ مَا بَطَنَ]… اس کا ایک معنی یہ کیا گیا ہے: جس قول وفعل کی قباحت ظاہر ہو یا مخفی، دوسرا معنی یہ کیا گیا ہے: جن فواحش کا ارتکاب لوگوں کے سامنے کیا جائے یا ان سے چھپ کر۔ یہ فاعل کے فعل کے اعتبار سے نہ کہ عمل کے اعتبار سے۔
Flag Counter