Maktaba Wahhabi

305 - 552
سنت قرآن کی تفسیر ٭ مؤلف رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ((فَالسُّنَّۃُ تُفَسِّرُ الْقُرْآنَ وَتُبَیِّنُہُ وَتَدُلُّ عَلَیْہِ وَ تُعَبِّرُ عَنْہُ۔)) ’’سنت قرآن کی تفسیر و تبیین کرتی، اس پر دلالت کرتی اور اس کی تعبیر کرتی ہے۔‘‘ شرح:…[تُفَسِّرُ الْقُرْآنَ]…یعنی سنت قرآن کے مرادی معنی کی وضاحت کرتی ہے، جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد باری تعالیٰ: ﴿لِلَّذِیْنَ اَحْسَنُوا الْحُسْنٰی وَ زِیَادَۃٌ﴾ (یونس: ۲۶) ’’محسنین کے لیے بھلائی ہے اور مزید کچھ اور بھی۔‘‘ کی تفسیر میں فرمایا: ’’اس سے مراد اللہ تعالیٰ کے چہرہ انور کی زیارت کرنا ہے۔‘‘[1] اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد باری تعالیٰ﴿وَ اَعِدُّوْا لَہُمْ مَّا اسْتَطَعْتُمْ مِّنْ قُوَّۃٍ﴾ (الانفال: ۶۰) ’’اور ان کے لیے جتنی بھی تم سے ہو سکے قوت تیار رکھو۔‘‘کی تفسیر کے ضمن میں فرمایا: ’’خبردار! قوت تیر اندازی ہے، خبردار! قوت تیراندازی ہے۔‘‘[2] [وَتُبَیِّنُہُ ]…یعنی سنت مجمل کی وضاحت کرتی ہے۔ قرآن مجید میں کئی آیات مجمل ہیں سنت ان کی تبیین وتوضیح کرتی ہے، مثلاً اللہ تعالیٰ نے ﴿وَ اَقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ﴾ (البقرۃ: ۴۳) ’’اور نماز قائم کرو۔‘‘ میں اقامت صلاۃ کا حکم دیا ہے جبکہ سنت نے اس کی کیفیت کی وضاحت کی ہے۔ ﴿اَقِمِ الصَّلٰوۃَ لِدُلُوْکِ الشَّمْسِ اِلٰی غَسَقِ الَّیْلِ﴾ (الاسراء: ۷۸) ’’نماز قائم کریں سورج کے ڈھلنے سے لے کر رات کی تاریکی تک۔‘‘ ﴿غَسَقِ الَّیْلِ﴾ رات کا شدید اندھیرا، اور یہ نصف شب کے وقت ہوا کرتا ہے۔ آیت کا ظاہری مفہوم یہ ہے کہ یہ ایک وقت ہے، مگر سنت نے اس مجمل کی اس طرح تفصیل بیان کی ہے: نماز ظہر کا وقت سورج ڈھلنے سے لے کر ہر چیز کا سایہ اس کی مثل ہونے تک ہے۔ نماز عصر کا اختیاری وقت ظہر کے آخری وقت سے سورج زرد ہونے تک ہے اور اسے بوقت ضرورت غروب آفتاب تک بڑھایا جا سکتا ہے۔ نماز مغرب کا وقت غروب آفتاب سے شروع ہوتا اور سرخی غائب ہونے پر ختم ہوتا ہے۔ اور نماز عشاء کا وقت سرخی غائب ہونے سے نصف شب تک ہے۔ نماز عشاء کے لیے وقتِ ضرورت نہیں ہے، لہٰذا اگر کوئی حائضہ عورت رات کے نصف آخر میں پاک ہوتی تو اس پر نہ تو عشاء کی نماز واجب ہے اور نہ مغرب کی، اس لیے کہ عشاء کی نماز کا وقت نصف شب کو ختم ہو جاتا ہے، سنت میں اس بات کی کوئی دلیل نہیں ہے کہ نماز عشاء کا وقت طلوع فجر تک ہوتا ہے۔
Flag Counter