Maktaba Wahhabi

418 - 552
شرح:…[لہ]… ضمیر کا مرجع نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی ہے۔ [شفاعات]… شفاعۃ کی جمع ہے جس کا لغوی معنی ہے: کسی چیز کو دوہرا کرنا، جفت بنانا۔ جبکہ اس کا اصطلاحی معنی ہے: جلب منفعت یا دفع مضرت کے لیے دوسرے کا واسطہ بننا، اصطلاحی معنی کی اشتقاق کے ساتھ مناسبت بالکل واضح ہے اس لیے کہ جب آپ کسی کا واسطہ بنیں گے تو اس کا جفت بن کر ہی اس کی سفارش کریں گے۔ شفاعت کی دو قسمیں ہیں : شفاعت باطلہ اور شفاعت صحیحہ۔ شفاعت باطلہ:اس کے ساتھ مشرکین کا اپنے بتوں کے حوالے سے تعلق ہوتا ہے، وہ اس طرح کہ مشرکین ان کی پرستش کرتے ہوئے یہ خیال کرتے ہیں کہ یہ اللہ کے ہاں ہمارے سفارشی ہیں ۔ جیسا کہ ارشاد ربانی ہے: ﴿وَ یَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ مَا لَا یَضُرُّہُمْ وَ لَا یَنْفَعُہُمْ وَ یَقُوْلُوْنَ ہٰٓؤُلَآئِ شُفَعَآؤُنَا عِنْدَ اللّٰہِ﴾ (یونس:۳) ’’اور وہ اللہ کے علاوہ اس کی عبادت کرتے ہیں جو انہیں نہ نقصان دے سکتا ہے اور نہ نفع، اور کہتے ہیں کہ یہ ہمارے اللہ کے ہاں سفارشی ہوں گے۔‘‘ مشرکین کا کہناتھا: ﴿مَا نَعْبُدُہُمْ اِِلَّا لِیُقَرِّبُوْنَا اِِلَی اللّٰہِ زُلْفَی﴾ (الزمر:۳) ’’ہم ان کی صرف اس لیے عبادت کرتے ہیں کہ وہ ہمیں مرتبہ میں اللہ کے قریب کر دیں گے۔‘‘ مگر یہ شفاعت باطل ہے جو کسی کے لیے نفع بخش نہیں ہوگی۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿فَمَا تَنْفَعُہُمْ شَفَاعَۃُ الشَّافِعِیْنَo﴾ (المدثر:۴۸) ’’انہیں شفاعت کرنے والوں کی شفاعت نفع نہیں دے گی۔‘‘ صحیح شفاعت میں تین شرطوں کا پایا جانا ضروری ہے۔ پہلی شرط: اللہ تعالیٰ شفاعت کرنے والے سے راضی ہو۔ دوسری شرط: جس کے لیے شفاعت کی گئی ہو اس سے راضی ہو۔ تیسری شرط: اللہ تعالیٰ شفاعت کرنے کی اجازت دے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ اجازت شافع اور مشفوع لہ پر راضی ہونے کے بعد ہی ممکن ہے۔ اس کی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے: ﴿وَکَمْ مِّنْ مَّلَکٍ فِی السَّمٰوٰتِ لَا تُغْنِیْ شَفَاعَتُہُمْ شَیْئًا اِِلَّا مِنْ بَعْدِ اَنْ یَّاْذَنَ اللّٰہُ لِمَنْ یَّشَآئُ وَیَرْضٰیo﴾ (النجم:۲۶)
Flag Counter